بھارت میں ایودھیا کے رام مندر پر جھنڈا لہرانے کی تقریب کے بعد مذہبی تناؤ اور اقلیتوں میں تشویش ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔ مختلف سیاسی و سماجی حلقوں نے اس واقعے کو ہندوتوا بیانیے کی مزید تقویت اور اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، کے لیے خطرے کی نئی علامت قرار دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق تقریب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت شریک تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر اُس مقام پر کی گئی جہاں 1992 میں بابری مسجد کو ایک مشتعل ہجوم نے مسمار کیا تھا، اور اس واقعے کو بعد ازاں سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔
تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’آج ایودھیا شہر بھارت کے ثقافتی شعور میں ایک اور سنگ میل دیکھ رہا ہے‘۔ ان کے اس بیان کو مخالف سیاسی جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، جن کے مطابق حکومت اس مسئلے کو مذہبی جذبات بھڑکانے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جھنڈا لہرانے کی تقریب کو ’نئے دور کی شروعات‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’شری رام کا مندر 140 کروڑ بھارتی عوام کے لیے قومی فخر کی علامت ہے اور اس پر لہرانے والا جھنڈا ترقی یافتہ بھارت کے تصور کی نمائندگی کرتا ہے‘۔ ان کے اس بیان پر اقلیتی تنظیموں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات بھارت کے مذہبی تنوع اور آئینی ہم آہنگی کے منافی ہیں۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ ہندوتوا نظریے پر مبنی سیاسی بیانیہ بھارت میں نفرت، عدم برداشت اور اقلیتوں کے عدم تحفظ کو بڑھا رہا ہے۔ ان کے مطابق رام مندر پر جھنڈا لہرانے کا اقدام بھارت کے مسلمان شہریوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے ماہرین نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی کشیدگی اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے خدشات پر نظر رکھنا ضروری ہے، جبکہ بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کو تقسیم کرنے کے بجائے سب کے لیے برابر مواقع اور مذہبی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔