سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم آئینی اور خاندانی نوعیت کے مقدمے میں قرار دیا ہے کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کی دفعہ 7 کے تحت تین طلاق سمیت طلاق کی کوئی بھی صورت 90 دن کی قانونی مدت پوری ہونے سے قبل مؤثر نہیں ہو سکتی۔ عدالت نے واضح کیا کہ طلاق کا عمل محض اعلان سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ قانون کے تحت طے شدہ مدت اور طریقہ کار پر عمل ضروری ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے محمد حسن سلطان کی پٹیشن نمٹاتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا۔ مقدمہ اس وقت پیدا ہوا جب فریقین کے درمیان طلاق کے نفاذ اور اس کے طریقہ کار پر اختلاف سامنے آیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اگر خاوند نے نکاح نامے میں بیوی کو بلا شرط حقِ طلاق تفویض کیا ہو تو بیوی کو نہ صرف طلاق دینے کا مکمل اختیار حاصل رہتا ہے بلکہ وہ اس کارروائی کو واپس لینے کا حق بھی رکھتی ہے۔ بینچ نے ریمارکس میں کہا کہ ’قانون بیوی کو وہی تمام اختیارات دیتا ہے جو تفویض کے بعد خاوند خود استعمال کر سکتا تھا‘۔
عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کے 7 اکتوبر 2024 کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بتایا کہ فریقین نے 2016 میں شادی کی تھی اور نکاح نامے کی شق 18 کے تحت خاوند نے اپنی اہلیہ مورِیل شاہ کو بلا شرط حقِ طلاق تفویض کیا ہوا تھا۔
کیس کے مطابق مورِیل شاہ نے 3 جولائی 2023 کو دفعہ 7 (1) کے تحت یونین کونسل کو طلاق کا نوٹس جاری کیا، لیکن قانونی مدت مکمل ہونے سے پہلے— یعنی 10 اگست 2023 کو — یہ کارروائی واپس لے لی۔ جس کے بعد چیئرمین یونین کونسل/آربیٹریشن کونسل نے طلاق کے عمل کو ختم کر دیا کیونکہ 90 دن کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی اور نوٹس واپس لے لیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے طلاق کے طریقہ کار، نوٹس کی قانونی حیثیت، اور تفویضِ حقِ طلاق کے استعمال کے حوالے سے ایک واضح قانونی رہنمائی فراہم ہو گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ مستقبل میں اس نوعیت کے مقدمات میں اہم نظیر ثابت ہوگا۔