پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا بھارت، افغانستان کے کٹھ جوڑ سے متعلق بڑا انکشاف

پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا بھارت، افغانستان کے کٹھ جوڑ سے متعلق بڑا انکشاف

بھارت اور طالبان حکومت کے درمیان سفارتی روابط جوں جوں مضبوط ہو رہے ہیں، کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں واضح تناؤ پیدا ہو گیا ہے اور خطے میں ایک نئی محاذ آرائی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سیاسی اور سفارتی روابط بڑھانے کی کوششوں نے پاکستان میں اسٹریٹجک بے چینی پیدا کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی وزیرِ دفاع کے کراچی پر قبضے کی بڑھک پر کینیڈا میں سکھوں کا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ

افغان حکام نے حال ہی میں پاکستان پر مشرقی افغانستان میں فضائی حملوں کا الزام لگایا، جس کو جواز بنا کر کابل نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ پاکستان نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ’ٹی ٹی پی‘ نے کیے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ طالبان اور بھارت دونوں ’ٹی ٹی پی‘ کو مختلف طریقوں سے معاونت فراہم کرتے ہیں، تاہم دونوں ممالک ان الزامات کو رد بھی کر رہے ہیں ‘۔

بھارت طالبان سے رابطے کیوں بڑھا رہا ہے؟

رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کا افغان پالیسی کا نیا رخ خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے اور افغانستان میں اپنے اقتصادی و سیاسی کردار کی بحالی کی کوشش ہے۔

بھارت کابل میں اپنے بند سفارت خانے کو کھولنے کی تیاری  کر رہا ہے جو 2021 کے بعد ایک بڑی پیش رفت ہے۔ تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھانے پر بات چیت ہو رہی ہے، خصوصاً پاکستان پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل تجارتی راستوں جیسے ’چابہار پورٹ‘ کا استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارت انسانی امداد اور ممکنہ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے افغانستان میں اپنا کردار بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں اور خطے میں نئی سفارتی جگہ بن سکے۔

رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانا پاکستان پر انحصار کم کرنے، سفارتی تنہائی توڑنے اور نئے معاشی مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔

پاکستان کی پریشانی

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان کے لیے بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اس کی روایتی افغان پالیسی اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ کے لیے خطرہ تصور  کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کابل کا نئی دہلی کی طرف جھکاؤ اس کی اسٹریٹجک پوزیشن کو کمزور کر دے گا۔

مزید پڑھیں:مودی طالبان گٹھ جوڑ، افغانستان کی بھارت کو سرمایہ کاری کی پیشکش

افغانستان کی جانب سے بھارت کو  اپنی سر زمین حوالے کرنے کا مطلب یہی ہے کہ بھارت پاکستان کے اندر بدامنی پیدا کرنے کے لیے مزید اقدامات اٹھائے گا۔

رپورٹ کے مطابق پاک۔افغان سرحد پر پہلے ہی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ہوتے ہوئے مزید الزامات اور جوابی الزامات ، مزید سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

بڑے خطرات کیا ہیں؟

رپورٹ کے مطابق اگر یہ سفارتی اور سیاسی تناؤ بڑھتا رہا تو پاک۔افغان سرحد پر مسلح جھڑپوں کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

افغانستان پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے متبادل تجارتی راستے اختیار کرے گا، پاکستان کے اندر سیکیورٹی خطرات بڑھ سکتے ہیں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان سرزمین کا مزید فائدہ اٹھائے گی۔

رپورٹ کے مطابق ایسی صورت حال میں پورا خطہ عدم استحکام کی طرف جا سکتا ہے، جس سے علاقائی امن کے امکانات کمزور ہو جائیں گے۔

بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال

رپورٹ کے مطابق 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان مسلسل اپنی خارجہ پالیسی نئے خطوط پر استوار کر رہا ہے۔ طالبان حکومت ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں اور اب بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا کر سفارتی تنہائی کم کرنا چاہتی ہے لیکن ساتھ ہے کابل حکومت کی اقتدار پر گرفت بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

دوسری طرف، بھارت کے لیے طالبان سے تعلقات بڑھانا ایک عملی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے وہ افغانستان میں اپنا اثر قائم رکھ کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ صورت حال ایک اسٹریٹجک چیلنج بنتی جا رہی ہے، کیونکہ اسے کابل اور نئی دہلی کے بدلتے ہوئے تعلقات کے درمیان اپنے مفادات کا توازن قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *