گزشتہ پانچ سال میں خیبر پختونخوا میں کتنی جنگلات غیر قانونی طور پر کاٹی گئیں؟

گزشتہ پانچ سال میں خیبر پختونخوا میں کتنی جنگلات غیر قانونی طور پر کاٹی گئیں؟

خیبر پختونخوا کے بیشتر گھنے جنگلات جو کبھی خطے کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا سمجھے جاتے تھے، آج خود مشکل سے اپنی سانسیں بحال رکھے ہوئے ہیں۔ دیودار اور چِیڑ جیسے تناور درخت تیزی سے غائب ہو رہے ہیں اور غیر قانونی لکڑی کی کٹائی پانچ سال میں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اس عرصہ میں 2 لاکھ کیوبک فٹ سے زائد لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی گئی ہے، جس کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے۔

جنگلات محاصرے میں

مؤثر پالیسی کی عدم موجودگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم توجہی نے جنگلات کو سمگلروں اور مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان جنگلات میں بسنے والے لاکھوں افراد کے لیے یہ درخت صرف معاش کا ذریعہ نہیں بلکہ طرزِ زندگی ہیں جو اب انسانی لالچ اور سرکاری غفلت کا شکار ہیں۔ صوبائی محکمہ جنگلات کے مطابق سب سے زیادہ غیر قانونی کٹائی مالاکنڈ فاریسٹ ریجن تھری میں ہوئی جہاں 1 لاکھ80 ہزار 127 کیوبک فٹ لکڑی ضبط کی گئی اور 45 کروڑ 79 لاکھ روپے جرمانے عائد کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: نااہل مودی کی ناقص معاشی پالیساں، بھارتی روپیہ ایشیا کی کمزور ترین کرنسی قرار

اسی طرح ریجن ون  جس میں بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان، کُرم، کوہاٹ، اورکزئی اور پشاور شامل ہیں — میں 6 ہزار 578 کیوبک فٹ غیر قانونی کٹائی ریکارڈ ہوئی۔ ریجن ٹو، جس میں کاغان، گلیات، تورغر، کوہستان اور ہری پور شامل ہیں، میں 87 ہزار 130 کیوبک فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی گئی۔ مزید برآں ہزارہ ٹرائبل ریجن میں 7,335 CFT، 7 ہزار 335 کیوبک فٹ ، سرن فاریسٹ میں 5 ہزار 758 کیوبک فٹ، گلیات میں 1 ہزار 718 کیوبک فٹ، جبکہ لوئر ہزارہ میں 32 ہزار 896 کیوبک فٹ لکڑی ضبط کی گئی۔

سمگلنگ اور انتظامی بدحالی

دنیا بھر میں جنگلات کی نگرانی ’’سائنٹیفک مینجمنٹ پلان‘‘ کے تحت ہوتی ہے مگر پاکستان میں 1992 کے سیلابوں کے بعد یہ پلان ترک کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں خشک اور گرے ہوئے درختوں کے ڈھیر جنگلات میں جمع ہوتے گئے، جو جنگلاتی آگ کے لیے ایندھن ثابت ہوسکتے ہیں۔ 2014 میں خیبر پختونخوا حکومت نے اس سائنسی منصوبے کو بحال کیا مگر 2024 میں ایک بار پھر اسے روک دیا گیا۔ سابق سیکرٹری جنگلات سید نذر حسین شاہ

کے مطابق مئی 2024 کے بعد سے مینجمنٹ پلان مکمل طور پر معطل ہے، جس کے باعث قانونی لکڑی کا کاروبار رک گیا جبکہ سمگلنگ بڑھتی چلی گئی۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ انتظامی خلا نہ صرف کرپشن کو فروغ دے رہا ہے بلکہ جنگلاتی وسائل کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔

جنگل کس کا؟

خیبر پختونخوا کے جنگلات چار مختلف کیٹیگریز میں تقسیم ہیں: ریزروڈ فاریسٹ (ہزارہ): مکمل طور پر سرکاری ملکیت، عوامی حقوق نہیں۔ پروٹیکٹڈ فاریسٹ (مالاکنڈ): سرکاری ملکیت، مگر عوام کو لکڑی چننے اور مال مویشی چرانے کی اجازت۔ گزارہ فاریسٹ: نجی ملکیت مگر انہیں زرعی یا تعمیراتی مقاصد میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ کمیونل فاریسٹ (ضم شدہ قبائلی اضلاع): مقامی ملکیت مگر انتظام 2022 کے ایکٹ کے تحت سرکار کے پاس ہے۔

فارسٹ افسر سلمان مروت کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں قا بلِ عمل نفاذ سیکیورٹی مسائل کے باعث سست روی کا شکار ہے۔

نذر حسین شاہ کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک صرف خشک یا بیمار درخت کاٹتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہر سال 18 ارب ڈالر، کینیڈا 17 ارب ڈالر اور جرمنی 12 ارب ڈالر کی لکڑی برآمد کرتے ہیں۔ ’’آسٹریا، جو خیبر پختونخوا سے بھی چھوٹا ہے، سالانہ 4.5 ارب ڈالر کی لکڑی بیچتا ہے۔‘‘

جنگلاتی دولت کا زوال

خیبر پختونخوا کے جنگلات میں اندازاً 93 ملین کیوبک میٹر کونیفیرس (مخروطی، صنوبری) لکڑی موجود ہے، جس سے 65 ملین کیوبک فٹ سالانہ لکڑی حاصل کی جا سکتی ہے، جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 975 ارب روپے بنتی ہے۔
اس کے باوجود مالی سال 2024–25 میں گوہر آباد، چکدرہ اور درگئی سمیت بڑے ڈپوؤں میں کوئی نیلامی نہیں ہوئی، جبکہ مارکیٹیں سمگل شدہ لکڑی سے بھری پڑی ہیں۔ اس سے جنگلات کے محکمے کی کارکردگی، اندرونی بدانتظامی اور مبینہ ملی بھگت پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ سابق چیف کنزرویٹر محمد رفیق کے مطابق ’’سائنٹیفک مینجمنٹ پلان کو غلط استعمال کر کے غیر قانونی کٹائی کو قانونی لباس پہنایا جا رہا ہے۔‘‘

قدرتی نظام خطرے میں

ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات کی تیز رفتار تباہی سے موسمیاتی تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں کے پیٹرن میں بگاڑ، مٹی کا کٹاؤ اور سیلاب کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو خیبر پختونخوا ایک شدید ماحولیاتی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔

سوات کے مؤرخ پروفیسر سلطانِ روم کے مطابق کمزور ریاستی گرفت والے علاقوں میں ’’جنگلات کی کٹائی اتنی عام ہے جتنی گرد‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ سخت قوانین اور سہولیات کی کمی نے مقامی آبادی کو درخت کاٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ’’اگر لوگوں کے پاس گیس، بجلی اور بنیادی سہولیات نہ ہوں تو وہ درخت ہی کاٹیں گے، اور کیا کریں؟‘‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ رشوت خوری کی وجہ سے سمگل شدہ لکڑی ملک کے دور دراز علاقوں تک با آسانی پہنچ رہی ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *