بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے ایک تازہ وارننگ جاری کی ہے جس میں شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ایسی ٹریول ایجنسیوں پر بھروسہ نہ کریں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ غیر ملکی ورک ویزا کی مکمل گارنٹی دیتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے کہا کہ ان پرائیویٹ ایجنٹوں کا بیرون ملک ملازمت میں کوئی قانونی کردار نہیں ہے اور انہیں ویزا یا جاب پروسیسنگ کے لیے کوئی ادائیگی نہیں کرنی چاہیے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے واضح کیا کہ صرف لائسنس یافتہ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز (OEPs) پاکستانی لوگوں کو بیرون ملک ملازمتوں کے لیے بھرتی کرنے کے مجاز ہیں اس حوالے سے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلایمنٹ نے درخواست دہندگان پر زور دیا کہ وہ www.beoe.gov.pk/list-of-oeps پر دستیاب آفیشل ڈائرکٹری کا استعمال کرتے ہوئے ایجنسی کے اسٹیٹس کو کراس چیک کریں۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی جانب سے جاری ایڈوائزری نے نام نہاد “آزاد ویزا” کے بارے میں بڑھتی ہوئی الجھنوں کو بھی دور کیا ہے اور بیورو نے کہا کہ کوئی بھی ملک ایسا ویزا جاری نہیں کرتا جو غیر محدود ملازمت کی اجازت دیتا ہو۔
ہر جائز ورک ویزا ایک مخصوص اسپانسر سے منسلک ہوتا ہے، اور کارکنوں کو قانونی طور پر اس اسپانسر کے ساتھ رہنا ضروری ہے جب تک کہ وہ منتقلی کی رسمی اجازت حاصل نہ کر لیں۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے خبردار کیا کہ اجازت کے بغیر آجروں کو تبدیل کرنے کے نتیجے میں قانونی سزائیں، ملک بدری، یا ملازمت کے حقوق ضائع ہو سکتے ہیں۔ بیورو نے مزید کہا کہ ملازمت کے دوران کسی حادثے کی صورت میں، امداد یا معاوضے کی ذمہ داری صرف اسپانسر کرنے والی کمپنی پر عائد ہوتی ہے۔
کارکن کے منظور شدہ معاہدے سے باہر ہونے والی آمدنی غیر قانونی ملازمت کے تحت آتی ہے۔ حکام نے عوام سے محتاط رہنے کی تاکید کی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ مفت، اوپن ، یا قابل منتقلی ویزوں کے وعدے اکثر ملازمت کے متلاشیوں کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔