خیبر پختونخوا، ادویات سکینڈل میں کتنے افسران ملوث ہیں، وہ کون کون ہیں، اور ہر ایک کا کردار کیا رہا؟

خیبر پختونخوا، ادویات سکینڈل میں کتنے افسران ملوث ہیں، وہ کون کون ہیں، اور ہر ایک کا کردار کیا رہا؟

خیبرپختونخوا میں نگران دور حکومت کے وقت میڈیسن سکینڈل میں ملوث افیسرز کے خلاف کارروائی کرنے پر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے، ملوث 29 افیسرز کے خلاف کریمینل اور محکمانہ کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ میڈیسن خریداری کو ڈی سنٹرلائزڈ کرنے اور میڈیسن رولز بنانے کی سفارش کی گئی ہے ۔

بریگیڈئیر ( ر) مصدق عباسی کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی انکوائری کمیٹی جس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ، سیکرٹری فنانس، اسٹیبلشمنٹ ، وزیر اعلی کے پرنسپل سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل ڈرگ شامل تھے جس کی رپورٹ کے مطابق میڈیسنل سکینڈل میں 2 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے اور 58 فیصد ایسی ادویات خریدی گئی ہے جو ز ندگی بچانے والی ادویات ہی نہیں ہے ۔

ادویات سکینڈل میں کون کون ملوث ہیں ؟

انکوائری کمیٹی نے نگران دور حکومت میں وزیر اعلی کے مشیر برائے ہیلتھ ڈاکٹر ریاض انور کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جنہوں نے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایڈمن ڈاکٹر فہیم کو ہٹا کر ان کی جگہ ڈاکٹر سراج کو تعینات کیا جبکہ میڈیسن خریداری کے عمل پر کمپنیوں کی جانب سے شکایاتیں کرنے پر ایک عارضی کمیٹی تشکیل دی تاکہ یہ تاثر دیا جاسکیں کہ انہوں نے کارروائی شروع کی ہے ۔ علاوہ ازیں اس وقت کے سیکرٹری صحت محمود اسلم نے پہلے سے ادویات خریداری کے عمل کو متاثر کیا اور اس سارے سکینڈل کیلئے راستہ ہموار کیا جنہوں نے جاری عمل کیلئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تاکہ وہ پہلے سے جاری عمل کا جائزہ لے جنہوں نے جاری عمل کو سبوتاژ کیا۔

سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر شوکت علی شروع سے لیکر اخر تک اس عمل میں ملوث رہے جو چیئرمین کمیٹی اور ادویات خریداری عمل کے انچارج تھے ۔ اس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سراج کو ممبر بنایا گیا جنہوں نے غیر ضروری ادویات کو خریداری کی فہرست میں شامل کیا، بڈنگ کے دستاویزات میں ردو بدل کیا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر دیر لوئر ڈاکٹر ارشاد کو ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ کا ایڈیشنل چارج دیا گیا اور مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ اکاونٹنٹ فضل دیان کو کمپنیوں کی بلز کلیئیر کرنے کیلئے ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کا چارج دیا گیا جنہوں نے اس میں معاونت فراہم کی، ڈائریکٹر زاہد علی خان کو بلوچستان اور سندھ میں کمپنیوں کے معائنہ کرنے کا رول دیا گیا جو انہوں نے نبھایا، اسی طرح ڈاکٹر مبشر بھی بلوں کو کلیئر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ڈائریکٹر پروکیورمنٹ محمد اسرار چیئرمین انسپکشن کمیٹی تھے اور اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح ضیاء اللہ نے بھی انسپکشن کمیٹی میں کردار ادا کیا۔

لاجسٹک افیسر خرم شیراز ریکارڈ رکھنے اور سٹاک کی تفصیلات رکھنے میں ناکام رہے، کمپیوٹر اپریٹر علی نواز نے انسپکشن کیا اور انہوں نے کمپنیوں اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے مابین مذاکرات کئے، ڈی ایچ او دیر لوئر کے اسسٹنٹ عمر خطاب کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات کیا جنہوں نے کمپنیوں کو ارڈرز دئیے، ڈی ایچ او دیر لوئر کے دفتر میں تعینات کمپیوٹر اپریٹر ذکریا کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر لاجسٹک تعینات کیا گیا جنہوں نے ادویات تقسیم کی منصوبہ بندی کی اسی طرح محمد اسلام بھی اس عمل میں ملوث رہے ۔

علاوہ ازیں سیکرٹری محمود اسلم نے پہلے سے جاری عمل کا جائزہ لینے کیلئے از سرنو پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں اس وقت کے چیف پلاننگ افیسر قیصر عالم، ڈائریکٹر ائی ایم یو ڈاکٹر اعجاز، ڈپٹی سیکرٹری ہیلتھ شیر عالم، ڈائریکٹر کیپرا اور سیکشن افیسر سلیم اللہ شامل تھے جنہوں نے دو بنیادوں پر جاری عمل کو روک کر سکینڈل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ اس وقت کے مردان ہسپتال کے ایم ایس ، ڈی ایچ او ملاکنڈ، دو ڈرگ انسپکٹرز سمیت کل 29 افیسرز ملوث رہے اس سارے عمل میں۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعلی کو مذکورہ ملازمین کے خلاف محکمانہ اور کریمینل کارروائی کرنے کیلئے سمری ارسال کی گئی اور سمری بھی تب ارسال کی گئی جب مسعود یونس کو سیکرٹری ہیلتھ کا اضافی چارج دیا گیا تاہم اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں اس سمری کو دبایا گیا لیکن بالاخر وزیر اعلی کو ارسال کردیا گیا، ذرائع کا دعوی ہے کہ سابق وزیر اعلی علی امین گنڈا پور نے اس پر دستخط کردئیے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا ہے، سابق سیکرٹری ہیلتھ محمود اسلم وفاق کے ملازم ہے تاہم ان کے خلاف صوبائی حکومت کارروائی نہیں کرسکتی بلکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھا جائے گا اس کے علاوہ ریاض انور بھی پرائیوٹ شخص ہے تاہم ان کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن کارروائی کرے گی ۔

رابطہ کرنے پر وزیر صحت خلیق الرحمن نے بتایا کہ حال ہی میں وہ وزیر مقرر ہوئے ہیں تاہم میڈیسن سکینڈل میں ملوث تمام کرداروں کے خلاف کارروائی ہوگی ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *