پاکستان تحریک انصاف کی اندرونی مشکلات میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا ہے جب تحصیل سماہنی آزاد کشمیر کے صدر میجر (ر) طارق محمود نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔
سماہنی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایسی جماعت کا حصہ نہیں رہ سکتے جو ’پاک فوج مخالف عزائم‘ رکھتی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وطن اور پاک فوج سے بڑھ کر کچھ نہیں، میں ہمیشہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں اور رہوں گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت اور قومی اداروں کے احترام پر کسی قسم کی سیاست برداشت نہیں کی جا سکتی اور وہ ذاتی حیثیت میں ریاست اور قومی اداروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
ادھر دوسری جانب پی ٹی آئی میں داخلی اختلافات، پارٹی رہنماؤں نے عمران خان کے فوج مخالف بیانیے کو بحران کی اصل وجہ قرار دے دیا ہے۔
اتوار کو ایک قومی انگلش روزنامے نے اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں بعض سینیئر رہنماؤں نے اعتراف کیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر مسلسل فوجی قیادت کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کرنے نے پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جمعے کے روز آنے والے شدید ردعمل کی راہ ہموار کی۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت کے اندر اس بات پر تشویش موجود ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں عمران خان نے اپنے ’ایکس‘ اکاؤنٹ سے درجنوں بار فوجی قیادت کے خلاف انتہائی سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کیے۔ ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’جب ہم مسلسل یہ سب کریں گے تو دوسری طرف سے کیا توقع رکھیں گے؟‘
رپورٹ کے مطابق پارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ کئی رہنما بانی چیئرمین کے فوج مخالف بیانیے سے اختلاف رکھتے ہیں، لیکن پارٹی کی عملی حکمتِ عملی اور پیغام رسانی پر ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں۔ اندرونی اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کا بیانیہ اب بھی اڈیالہ جیل سے طے ہوتا ہے، چاہے رہنماؤں کے کتنے ہی تحفظات موجود ہوں۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ تر سینیئر پی ٹی آئی رہنما عمران خان کی ایسی متنازع سوشل میڈیا پوسٹس کو نہ شیئر کرتے ہیں اور نہ ہی لائک کرتے ہیں۔ پارٹی کے کئی رہنما حالات کو ٹھنڈا کرنے کے خواہاں ہیں مگر نہ عمران خان ان کی بات سنتے ہیں اور نہ ہی انہیں پارٹی کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کوئی اختیار حاصل ہے۔
جمعے کے روز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بے مثال سخت لہجے میں پی ٹی آئی کے بانی کو ’ذہنی مریض‘ اور ’قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ‘ قرار دیا۔ اگرچہ انہوں نے عمران خان کا نام نہیں لیا، مگر ان کی تنقید کا ہدف واضح طور پر پی ٹی آئی کی قیادت تھی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ ریاست مخالف بنتا جا رہا ہے اور اس کی پذیرائی ان عالمی میڈیا اداروں میں ہو رہی ہے جن کی افواج ’ماضی میں پاک فوج کے ہاتھوں شکست کھا چکی ہیں‘۔
فوج اور پی ٹی آئی قیادت کے درمیان بیانات کا یہ تبادلہ اب تک کی براہِ راست ترین کشیدگیوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے، جو نہ صرف دونوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس اندرونی کشمکش کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کیا حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق میجر (ر) طارق محمود جیسے رہنماؤں کی جانب سے استعفے اس بات کا عندیہ ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر فوج مخالف بیانیے پر بڑھتی ہوئی بے چینی اب کھل کر سامنے آ رہی ہے۔