پی ٹی آئی کی پشت پناہی سے چلنے والا غیر قانونی سگریٹس نیٹ ورک بے نقاب، ایف بی آر کا مردان میں خفیہ فیکٹری پر چھاپہ، مشینری ضبط

پی ٹی آئی کی پشت پناہی سے چلنے والا غیر قانونی سگریٹس نیٹ ورک بے نقاب، ایف بی آر کا مردان میں خفیہ فیکٹری پر چھاپہ، مشینری ضبط

خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی پشت پناہی میں غیر قانونی سگریٹ و تمباکو نیٹ ورک پر ایف بی آر کا کریک ڈاؤن اور مردان میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے غیر قانونی سگریٹس تیار کرنے والی فیکٹری مشینری سمیت ضبط کر لی۔

تفصیلات کے مطابق 5 دسمبر کو مردان میں ایف بی آر نے غیر قانونی اسگریٹس تیار کرنے والی فیکٹری کی مشینری ضبط کر لی۔ آر ٹی او پشاور کی ٹیم نے چیف کمشنر کی نگرانی میں مردان میں یونیورسل ٹوبیکو کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے خفیہ پلانٹ پر کارروائی کی۔ یہ کمپنی خفیہ طور پر کٹ تمباکو تیار کر رہی تھی، جو غیر قانونی سگریٹ سازی میں استعمال ہوتا ہے۔

یونیورسل ٹوبیکو کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ، کیفے اور رینجر جیسے معروف برانڈز بھی تیار کرتی ہے۔ ضبط کی گئی مشینری کی یومیہ پیداواری صلاحیت 6,000–7,000 کلوگرام تھی، جس سے تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے یومیہ آمدنی ہوتی ہے۔

آر ٹی او پشاور نے بغیر کسی دباؤ کے مشینری ضبط کی اور قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ یہ اقدام قانون کی بالادستی اور قومی محصولات کے تحفظ کے لیے ایف بی آر کے عزم کا واضح ثبوت ہے۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا میں غیر قانونی سگریٹس بنانے کا سلسلہ نیا نہیں۔ خیبرپختونخوا میں سگریٹ ساز اور تمباکو کا کاروبار کرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور یہ لوگ بااثر سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔

مزید پڑھیں: حکومت کا 50 ارب روپے کا منی بجٹ تیار، سگریٹس اور لگژری گاڑیوں پر نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ

ذرائع کے مطابق مردان میں مسعود ویلفیئر ٹرسٹ المعروف مسعود سنز کا تعلق یونیورسل ٹوبیکو کمپنی، سلیم سگریٹ انڈسٹریز، ملت ٹوبیکو اور مارکور ٹوبیکو سے ہے۔ سعد رحمان—جو سینیٹر فیصل سلیم رحمان اور حاجی نسیم رحمان کے قریبی رشتہ دار ہیں—اس نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ یہی سیاسی پشت پناہی ان کمپنیوں کو برسوں تک غیر قانونی پلانٹ بلا خوف و خطر چلانے کی اجازت دیتی رہی۔

اسی طرح متعدد کمپنیاں بھی کام کرتی رہی ہیں جن کے روابط تحریکِ انصاف کے رہنماؤں سے ہیں۔

یہ کمپنیاں ٹیکس چوری کے ذریعے بھاری منافع کماتی ہیں۔ ٹیکس سے بچنے کے لیے ملاکنڈ اور دیگر علاقوں میں فیکٹریاں قائم کی گئی ہیں، جہاں ٹیکس اور کسٹم کے قوانین نہ لاگو ہوتے ہیں نہ نافذ۔ سیاسی سرپرستی کے باعث یہ غیر قانونی سرگرمیاں طویل عرصے تک جاری رہیں۔

اہم ناموں میں رکن قومی اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی اور ان کا خاندان شامل بتائے جاتے ہیں، جو ریڈ اینڈ وائٹ اور کیش جیسے برانڈز تیار کرتے ہیں۔ یہ برانڈز افغانستان اور دریائے سندھ کے راستے پنجاب میں سمگل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر عاطف خان بھی اس گروپ سے منسلک بتائے جاتے ہیں، جبکہ اسد قیصر پر بھی سگریٹ و تمباکو کی غیر قانونی ڈیلز میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

مردان کے سینیٹر دلاور خان متعدد فیکٹریوں کے مالک ہیں، جبکہ حاجی نسیم الرحمان اور ان کے بیٹے فیصل نسیم (تحریک انصاف کے سینیٹر) بھی اس نیٹ ورک سے وابستہ ہیں۔ فیکٹریوں کی اکثریت صوابی، مردان، سخاکوٹ، درگئی اور نوشہرہ میں قائم ہے۔

یہ سیاسی نیٹ ورک اربوں روپے کی غیر قانونی آمدنی سوشل میڈیا مہمات میں استعمال کرتا ہے، جہاں بھاری تنخواہوں پر ٹیمیں عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف گمراہ کرنے کا کام کرتی ہیں۔

سگریٹ سازی کی لاگت انتہائی کم ہوتی ہے، جبکہ مارکیٹ میں قیمت ٹیکسوں کی وجہ سے زیادہ بنتی ہے۔ ٹیکس چوری کی صورت میں یہ کاروبار بے پناہ منافع دیتا ہے، اور پچھلے دس برسوں میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران یہ سلسلہ فروغ پاتا رہا۔

مزید برآں، 2024–25 کے بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا، جس کا فائدہ بھی انہی گروپس کو پہنچتا رہا۔

وزیرِاعظم پاکستان کی ہدایات پر ملک بھر میں GLT یونٹس پر 120 پاکستان رینجرز تعینات کیے گئے، جبکہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے تحت خصوصی مانیٹر بھی مقرر کیے گئے تاکہ قانونی پیداوار کو یقینی بنایا جا سکے۔

گزشتہ چند برسوں میں یونیورسل ٹوبیکو کمپنی کے خفیہ پلانٹ کے خلاف متعدد کارروائیاں کی جا چکی ہیں:
— 2021 میں ابتدائی انکوائری
— 2022 میں مردان اور صوابی میں تین غیر اعلانیہ فیکٹریاں ضبط اور ایف بی آر نوٹس
— 2024 میں تحقیقاتی رپورٹ میں سیاسی پشت پناہی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا انکشاف
— 5 دسمبر 2025 کو آر ٹی او پشاور کا خفیہ پلانٹ پر چھاپہ، مشینری ضبط اور قانونی کارروائی کا آغاز

یہ تمام صورتحال واضح کرتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں غیر قانونی سگریٹ و تمباکو کا کاروبار سیاسی پشت پناہی کے تحت برسوں سے پنپ رہا تھا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *