سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کو متعدد عرب اور مسلم ممالک کی جانب سے اعتراضات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کیلئے مجوزہ ’بورڈ آف پیس‘ سے ہٹا دیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
بلیئر کی نامزدگی پر علاقائی اعتراضات
ستمبر کے آخر میں منصوبے کے اعلان کے وقت ٹرمپ نے بلیئر کو ’بہت اچھا انسان‘ قرار دیتے ہوئے انہیں بورڈ کا واحد نامزد فرد بتایا تھا۔ ٹونی بلیئر نے بھی اس منصوبے کو ’جری اور ذہین‘ قرار دیتے ہوئے اس میں خدمات انجام دینے کی آمادگی ظاہر کی تھی۔
تاہم متعدد عرب اور مسلم ریاستوں نے ان کی شمولیت کی مخالفت کی، یہ کہتے ہوئے کہ 2003 کی عراق میں امریکی حملے کی بھرپور حمایت کے باعث ان پر گہرا عدم اعتماد موجود ہے۔ سفارتکاروں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اس مجوزہ نظامِ حکمرانی میں فلسطینیوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔
ٹونی بلیئر پراعتراضات کی تردید
میڈیا رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر کے دفتر نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ تاہم ان کے ایک قریبی ساتھی نے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ علاقائی مخالفت ٹونی بلیئر کے خارج ہونے کی وجہ بنی ہے۔ ان کے مطابق بورڈ صرف موجودہ سربراہانِ مملکت پر مشتمل ہوگا، جس کے باعث سابق وزیرِ اعظم ہونے کی وجہ سے بلیئر خود بخود نااہل ہو جاتے ہیں۔
ساتھی کے مطابق بلیئر اب ایک چھوٹی ایگزیکٹو کمیٹی میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں، جس میں جیرڈ کُشنر، ٹرمپ کے مشیر اسٹیو وٹکوف، اور عرب و مغربی ممالک کے سینیئر حکام شامل ہوں گے۔
اکتوبر میں ٹرمپ نے خود بھی اعتراف کیا تھا کہ ٹونی بلیئر کی نامزدگی کو اعتراضات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے ٹونی بلیئر کو پسند کرتا ہوں، مگر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ سب کے لیے قابلِ قبول انتخاب ہیں یا نہیں ہیں۔‘
غزہ سے متعلق ٹونی بلیئر کی طویل وابستگی
میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارتِ عظمیٰ سے 2007 میں سبکدوش ہونے کے بعد بلیئر مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی رہے اور ایک سال سے زیادہ عرصے سے غزہ سے متعلق منصوبہ بندی میں سرگرم ہیں۔ ٹونی بلیئر انسٹیٹیوٹ کے ذریعے وہ جیرڈ کُشنر کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے ہیں، جو ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی تھے۔
مزید ایک ذریعے نے بتایا کہ ٹونی بلیئر کو غزہ کی مستقبل کی حکمرانی میں کسی اور کردار کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی مختلف صلاحیت میں حصہ لے سکتے ہیں اور ایسا ہونا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ امریکی انہیں پسند کرتے ہیں اور اسرائیلی بھی۔‘
غزہ میں تقسیم کے باعث امن منصوبہ تعطل کا شکار
جنگ بندی کے باوجود ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ 2 ماہ گزرنے کے باوجود آگے نہیں بڑھ سکا۔ غزہ اب بھی منقسم ہے، جہاں کچھ علاقوں پر حماس اور کچھ پر اسرائیلی فورسز کا کنٹرول ہے، جس سے نئے نظامِ حکمرانی کی تشکیل مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
منصوبے کے اعلان کے وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’بورڈ آف پیس‘ کے مزید ارکان، جن میں سربراہانِ مملکت شامل ہونے کی توقع تھی چند دنوں میں اعلان کیے جائیں گے۔ تاہم ابھی تک کوئی تقرری سامنے نہیں آئی ہے۔