پی ٹی آئی کی ملک دشمن مہم مزید تیز، لندن میں وزیرِداخلہ محسن نقوی کی گاڑی کی پروٹوکول چیکنگ پر پروپیگنڈا بے نقاب

پی ٹی آئی کی ملک دشمن مہم مزید تیز، لندن میں وزیرِداخلہ محسن نقوی کی گاڑی کی پروٹوکول چیکنگ پر پروپیگنڈا بے نقاب

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے برطانیہ کا اہم اور مصروف دورہ مکمل کیا، جس کا مقصد سیکیورٹی تعاون، بھگوڑے یو ٹیوبرز اور ملک دشمن عناصر کی حوالگی کے معاملات، منظم جرائم کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان اشتراک کو مضبوط بنانا تھا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ہینڈلرز نے اس دورے کو بے بنیاد پروپیگنڈے سے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن صارفین نے اسے ناکام بنا دیا۔

واضح رہے کہ محسن نقوی 7 دسمبر کو لندن پہنچے جہاں انہوں نے برطانوی فارن آفس، ہوم آفس اور نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ دورے کا مرکزی موضوع پاکستان کے اُن افراد کی حوالگی کی درخواستیں دینا تھیں جن پر ’ریاست مخالف پروپیگنڈا‘ اور ’فساد پھیلانے‘ کے الزامات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:لندن میں نون لیگ پر ہلڑ بازی، دس سے 12 افراد جمائمہ کے پیسوں پر کام کر رہے ہیں ، عطا تارڑ کا انکشاف

حکومتی ذرائع کے مطابق محسن نقوی نے سابق پی ٹی آئی مشیر شہزاد اکبر اور وی لاگر عادل راجہ جیسے افراد کی واپسی سے متعلق دستاویزات برطانوی حکام کو پیش کیں۔

وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں خبردار کیا تھا کہ ’لندن میں بیٹھ کر پاکستانی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں‘ کو پاکستان واپس لاکر قانون کے سامنے لایا جائے گا، جو شہزاد اکبر اور عادل راجا جیسے ملک دشمن پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کے لیے واضح پیغام قرار دے رہے ہیں۔

سیکیورٹی تعاون پر اہم پیش رفت

محسن نقوی نے برطانیہ کی این سی اے کے ڈائریکٹر جنرل گریم بگار سے ملاقات میں منظم جرائم، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف مشترکہ اقدامات پر بات چیت کی۔ بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) انہوں نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے لیے سرمایہ کاری کے روڈ شو میں بھی شرکت کی اور پاکستان میں کرکٹ اسٹیڈیمز اور سیکیورٹی انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن پر گفتگو کی۔

گاڑی کی سیکیورٹی چیک پر سوشل میڈیا پر طوفان

پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ہینڈلرز نے محسن نقوی کے دورے کو اس وقت سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خصوصاً ’ایکس‘ پر تیزی سے ویڈیو وائرل ہوئیں۔ ویڈیوز میں برطانوی سیکیورٹی اہلکاروں کو وزیر داخلہ محسن نقوی کی گاڑی کے نیچے آئینے سے چیکنگ کرتے، ٹرنک کھول کر اسکیننگ کرتے اور پوری گاڑی کا معائنہ کرتے دکھایا گیا، جو برطانیہ کے اعلیٰ سیکیورٹی والے سرکاری دفاتر میں ’معمول کا طریقہ کار‘ ہے۔

مزید پڑھیں:شہزاد اکبر اور عادل راجہ کے گرد گھیرا مزید تنگ، وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی برطانوی دفتر خارجہ پہنچ گئے

تاہم پی ٹی آئی کے حامیوں نے ان مناظر کو ’نفرت آمیز سلوک‘ قرار دیتے ہوئے اسے حکومت پر بین الاقوامی سطح پر ’عدم اعتماد‘ کی علامت بنا کر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ ایک وائرل پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ محسن نقوی کے ساتھ ’نفرت آمیزسلوک‘ ہوا، جسے سوشل میڈیا صارفین نے ہی مکمل طور پر غیر مصدقہ، مخاصمانہ اور مبالغہ آمیز دعویٰ قرار دیا، اس پر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کو جوابی شدید طنزیہ ردِعمل کا سامنے کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے کچھ اکاؤنٹس نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’وہ خوف برآمد کرنے گئے تھے، لیکن نفرت درآمد کرکے آئے۔‘

سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل

حکومتی حلقوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو مخاصمانہ، جھوٹا، بے بنیاد اور ’من گھڑت پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق برطانیہ میں غیر ملکی وزرا، ڈپلومیٹس اور ریاستی وفود کے لیے یہ سیکیورٹی چیک معمول کا حصہ ہے، چاہے وہ کسی بھی ملک سے ہوں۔ مختلف ممالک کے وفود کی اسی نوعیت کی ویڈیوز بھی سیکیورٹی پروٹوکول کی مثال کے طور پر موجود ہیں۔

صارفین نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین ملک دشمنی میں اس معاملے کو بلاوجہ سیاسی رنگ دے رہی ہے تاکہ اپنے قائدین عالمی سطح پر گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دیا جا سکے اور پاکستان میں ملک دشمن پروپیگنڈا عناصر کو درپیش قانونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے ، صارفین اسے 2024 میں اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر پی ٹی آئی مظاہرین کے حملے کا حوالہ بھی دے رہے ہیں کہ ملک دشمنی میں پی ٹی آئی کا ’دہرا معیار‘ ایک مثال بن گئی ہے۔

بعض صارفین نے اسے پی ٹی آئی کی جانب سے بیرونِ ملک ہونے والے سرکاری دوروں کو بھی گھریلو سیاسی بیانیوں میں استعمال کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بیرون ملک بیٹھے عناصر ’غلط معلومات اور پروپیگنڈہ‘ کے ذریعے ملک کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *