پاکستان تحریکِ انصاف کو ایک اور بڑا سیاسی دھچکا اس وقت لگا جب پارٹی کے سینئر رہنما، معروف قانون دان اور انصاف لائرز فورم کے صدر قاضی انور ایڈووکیٹ نے باقاعدہ طور پر پارٹی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا، قاضی انور ایڈووکیٹ کا شمار پی ٹی آئی کے نظریاتی اور متحرک رہنماؤں میں ہوتا تھا، اسی لیے ان کی علیحدگی کو پارٹی کے لیے اہم نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
قاضی انور ایڈووکیٹ نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی جس منشور اور اصولی سیاست کے نعرے کے ساتھ وجود میں آئی تھی، بدقسمتی سے آج وہی اصول خود پارٹی کے اندر نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف، شفافیت اور میرٹ کی بات کرنے والی جماعت میں اندرونی طور پر ان اقدار پر عمل نہیں ہو رہا، جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کی موجودہ قیادت نے نہ صرف میری بات کو اہمیت نہیں دی بلکہ انہیں مسلسل نظرانداز اور بے عزت کیا گیا۔ قاضی انور کے مطابق پارٹی میں انہیں شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا، جو ایک نظریاتی کارکن کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ تکلیف انہیں اسی جماعت میں ملی، جس سے انہوں نے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔
سید ذیشان کوایک خصوصی انٹرویو میں قاضی انور ایڈووکیٹ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پارٹی کے کئی رہنما خود اس منشور سے ہٹ چکے ہیں جس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے بجائے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر بحران بڑھتا جا رہا ہے۔
یاد رہے چند روز قبل آزاد کشمیر کے علاقے سماہنی میں پی ٹی آئی کے تحصیل صدر نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ بعض رہنماؤں کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی قابلِ قبول نہیں۔ ان کے مطابق ادارے ملکی سرحدوں کے محافظ ہیں اور جو جماعت یا رہنما اداروں کے خلاف کھڑا ہو، اس کا حصہ نہیں رہا جا سکتا۔
قاضی انور ایڈووکیٹ کا استعفیٰ پی ٹی آئی میں بڑھتے ہوئے اندرونی اختلافات کی واضح علامت ہے اگر پارٹی قیادت نے صورتحال پر قابو نہ پایا تو آئندہ دنوں میں مزید اہم شخصیات کی علیحدگی بھی سامنے آ سکتی ہے جو پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔