نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے ملک بھر میں انفلوئنزا کے ممکنہ اضافے کے پیش نظر ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایچ تھری این ٹو انفلوئنزا کے کیسز پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑھ رہے ہیں۔
ایڈوائزری کے مطابق ایچ تھری این ٹو کی ایک نئی جینیاتی ذیلی قسم، جسے سب کلاڈ کے کہا جاتا ہے اور جسے عام طور پر ’سپر فلو‘ کہا جا رہا ہے، عالمی سطح پر سامنے آئی ہے۔ این آئی ایچ نے صوبائی محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تیاریوں کو مزید بہتر بنائیں اور بچاؤ کے اقدامات کو مؤثر کریں۔
این آئی ایچ کے مطابق ملک میں انفلوئنزا جیسی بیماریوں اور شدید سانس کے انفیکشن کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ نگرانی کے اعداد و شمار کے مطابق وبائی ہفتوں 44 سے 49 کے دوران ملک بھر میں 340,856 مشتبہ انفلوئنزا جیسے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 12 فیصد نمونوں میں ایچ تھری این ٹو کی تصدیق ہوئی۔
ادارے نے کہا کہ یہ ایڈوائزری صوبائی محکموں اور دیگر شراکت داروں کو بروقت اقدامات کے لیے متنبہ کرنے اور آئندہ مہینوں میں آؤٹ پیشنٹ اور ان پیشنٹ مریضوں کی ممکنہ بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے تیاری کے مقصد سے جاری کی گئی ہے۔
این آئی ایچ نے وضاحت کی کہ انفلوئنزا ایک شدید وائرل سانس کی بیماری ہے جو انفلوئنزا اے اور بی وائرس سے ہوتی ہے اور ہر سال دنیا بھر میں وباؤں کا سبب بنتی ہے۔ ادارے کے مطابق انفلوئنزا اے زیادہ تیزی سے پھیلنے اور زیادہ شدید بیماری سے منسلک ہے، خاص طور پر معمر افراد، کم عمر بچوں، حاملہ خواتین اور دمہ، ذیابیطس، دل یا پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد میں۔
ایڈوائزری کے مطابق اگست 2025 سے عالمی ادارۂ صحت کے کئی خطوں میں ایچ تھری این ٹو کیسز میں تیزی سے اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں انفلوئنزا کی مثبت شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جہاں مئی سے نومبر 2025 کے اختتام تک رپورٹ ہونے والے انفلوئنزا اے کے 66 فیصد کیسز ایچ تھری این ٹو سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح کے رجحانات آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
این آئی ایچ نے خبردار کیا کہ حالیہ اضافے، بعض علاقوں میں صحت کی سہولیات تک محدود رسائی، انفیکشن سے بچاؤ کے اقدامات میں خلا اور عوامی آگاہی کی کمی کے باعث پاکستان میں جاری فلو سیزن شدید ہو سکتا ہے۔
ایڈوائزری میں کہا گیا کہ موسمی انفلوئنزا ابتدا میں ہلکی علامات کے ساتھ ظاہر ہو سکتا ہے، تاہم یہ شدید یا پیچیدہ بیماری میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ این آئی ایچ نے زور دیا کہ ویکسینیشن انفیکشن سے بچاؤ اور سنگین نتائج کو کم کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے، خاص طور پر حساس آبادی کے لیے۔
ادارے نے بتایا کہ انفلوئنزا وائرس عموماً کھانسی اور چھینک کے ذریعے اور آلودہ ہاتھوں یا سطحوں سے پھیلتا ہے۔ عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ بار بار صابن اور پانی سے ہاتھ دھوئیں یا الکحل پر مبنی سینیٹائزر استعمال کریں، کھانستے یا چھینکتے وقت منہ اور ناک کو ڈھانپیں، بیماری کی صورت میں ہجوم والی جگہوں سے گریز کریں، مناسب آرام کریں اور سماجی فاصلہ اختیار کریں۔
این آئی ایچ کے مطابق سی ڈی سی این آئی ایچ کا پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آپریشنز سینٹر ملک بھر میں موسمی انفلوئنزا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے صورتحال کی مسلسل نگرانی اور ردعمل کی کوششوں کو مربوط کر رہا ہے۔