امریکا نے H-1B ورک ویزا کے لیے طویل عرصے سے جاری لاٹری سسٹم ختم کرنے اور اس کی جگہ نیا ‘ویٹڈ سلیکشن’ نظام متعارف کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس نئے نظام کے تحت زیادہ تنخواہ اور اعلیٰ مہارت رکھنے والے غیر ملکی کارکنوں کو ترجیح دی جائے گی، جس سے ابتدائی سطح کے پروفیشنلز کے لیے امریکی ویزا حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
امریکی محکمہ داخلہ (DHS) کے مطابق یہ قانون 27 فروری 2026ء سے نافذ العمل ہوگا اور مالی سال 2027ء سے تقریباً 85 ہزار H-1B ویزوں کی تقسیم اسی نظام کے تحت کی جائے گی۔
امریکی شہریت و امیگریشن سروس (USCIS) کے ترجمان میتھیو ٹریگیسر نے کہا کہ موجودہ لاٹری سسٹم کا غلط استعمال ہو رہا تھا، اور کئی امریکی کمپنیاں کم تنخواہوں پر غیر ملکی کارکن بھرتی کر رہی تھیں، جس سے امریکی ورکرز متاثر ہو رہے تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا کہ یہ فیصلہ دیگر اقدامات کے تسلسل میں لیا گیا، جن میں H-1B ویزا حاصل کرنے والی کمپنیوں کے لیے اضافی ایک لاکھ ڈالر فیس بھی شامل ہے۔
نئے نظام کے تحت ویزوں کی قرعہ اندازی کے بجائے تنخواہ اور مہارت کی بنیاد پر انتخاب کیا جائے گا، تاکہ زیادہ ہنر مند اور زیادہ معاوضہ پانے والے افراد کو ترجیح دی جا سکے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس سال ایمازون سب سے زیادہ H-1B ویزے حاصل کرنے والی کمپنی رہی، جس کے بعد ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز، مائیکروسافٹ، ایپل اور گوگل کا نمبر آتا ہے۔ کیلیفورنیا میں H-1B ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔