خیبر پختونخوا حکومت نے صوبےکے 8 اضلاع میں محکمہ آبپاشی کی مخالفت کے باوجود منی مائیکرو ہائیڈرو پاور کے 39 منصوبوں پر ایشئین ڈیویلپمنٹ بینک کے تعاون سے کام شروع کروا دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے آٹھ اضلاع میں محکمہ ابپاشی کی مخالفت کے باوجود منی مائیکرو ہائیڈرو پاور کے 39 منصوبے نہروں پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے 2 ارب51 کروڑ قرضہ لیا گیا ہے۔ یہ منصوبے چارسدہ، مردان، صوابی، ہری پور، مالاکنڈ، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خانمیں شروع کیے جائیں گے جن سے چار میگاواٹ بجلی حاصل ہوکر 46 ہزار افراد مستفید ہوں گے۔ منی مائیکرو ہائیڈرو پاور منصوبہ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر فیصل داوڑ کے مطابق نہروں پر بننے والے منصوبے مذکورہ اضلاع کے ان مقامات پر شروع کئے جارہے ہیں جہاں بجلی کی سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے نیز وہاں سے بلوں کی ریکوری بھی نہیں ہورہی۔ یہاں کی مقامی آبادی کی اکثریت لکڑی کو بجلی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ صاحب حیثیت لوگوں نے سولر سسٹم (شمسی توانائی) لگا رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت سندھ کے 30اضلاع میں سولر ہوم سسٹم کٹس کی فراہمی کا آغاز
موجود دستاویزات کے مطابق ضلع چارسدہ میں پندرہ منصوبوں سے 1724 کلو واٹ بجلی پیدا ہوگی، مردان، صوابی، ہری پور اور مالاکنڈ میں 14 منصوبوں سے مجموعی طور پر 1697 کلو واٹ، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں 10 منصوبوں سے مجموعی طور پر 883 کلوواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ان منصوبوں سے بجلی کی کمی پر قابو پانا تو ایک طرف لیکن دوسری طرف محکمہ ایری گیشن کو ان منصوبوں پر کچھ تحفظات بھی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِن منصوبوں سے پانی میں کمی آنے کا خدشہ ہے جس سے زمیندار متاثر ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہروں میں پانی چھوڑنے کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے اور ہر سال کچھ عرصہ کے لیے نہروں میں پانی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو سپورٹ نہیں کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی ایک میٹنگز کے بعد محکمہ ایری گیشن نے ان منصوبوں کے لیے مشروط این او سی جاری کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے بھی این او سی کے طریقہ کار پر پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ طریقہ لمبا ہونے کی وجہ سے این او سی لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار پی ٹی آئی کارکنان کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا
ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے مائیکرو منی ہائیڈرو پراجیکٹ (ایم ایم ایچ پی) کا پہلا مرحلہ مکمل نہیں کیا اور دوسرے مرحلے پر کام شروع کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس سے کوئی ریونیو (آمدن) حاصل نہیں ہورہی ہے کیونکہ پہلے فیز میں تمام منصوبے مقامی لوگوں (کیمونٹی)کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ کمیونٹی ہی اس کو چلانے، اس کی مرمت اور لوگوں کو بجلی کی ترسیل کی ذمہ دار ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت اس کے لیے فی یونٹ کے ںرخ کا تعین کرتی اور اس کو ٹھیکے پر کسی کو دے دیا جاتا تو اس سے نہ صرف آمدن حاصل ہوتی بلکہ اس کو صحیح طریقہ سے چلانا بھی ممکن ہوتا۔ اس کے علاوہ ہر ایک منصوبے کے مختلف معاہدے کئے گئے ہیں، نہ تو ان معاہدوں میں مماثلت ہے اور نہ ہی ان منصوبوں سے آمدنی حاصل کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے ایسے اس منصوبوں کے لیے قرض ہی لینا پڑرہاہےجوہرصورت حکومت کو ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کو خطرہ ہے تو اسمبلیاں تحلیل کرکے الیکشن کروالیں، نئیر حسین بخاری
دوسری طرف فیصل داوڑ کا کہناہے کہ دوسرے فیز میں بڑے منصوبے شامل ہیں اور اس کو آوٹ سورس کرنے (ٹھیکہ پر دینے) یا خود چلانے پر غور ہورہاہے جس سے اچھی خاصی آمدن حاصل ہونے کی توقع ہے ۔ تاہم نہروں پر بننے والے منصوبے مقامی کیمونٹی کو ہی سپرد کیے جائیں گے۔
ایم ایم ایچ پی پر ریسرچ کرنے والی خاتون آمنہ شہاب کے مطابق سمائل ہائیڈرو (پانی پر چلنے والے) منصوبے ریونیبل (متبادل) انرجی ہے جو بہت مہنگا لگتا ہے۔ ان کے مطابق ایم ایم ایچ پی سے پیدا ہونے والی بجلی کا کوئی بلنگ سسٹم نہیں ہے جس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’’ان منصوبوں کی وجہ سے پیسکو جو بجلی بنارہاہے اس کی طلب کم ہوجائے گی۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ فاسل فیول سے پیدا ہونے والی بجلی جو بہت مہنگی پڑتی ہے کی طلب کم ہو جائے گی اور لامحالہ اس کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن کی درآمد میں بھی کمی ہو گی۔ لیکن دوسری طرف ڈسٹری بیوشن کمپنیز (ڈِسکوز) پر جو قرضہ ہے وہ بڑھ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنریشن زیادہ ہے، ٹرانسمیشن نہیں ہے اور استعمال کرنےوالوں کو بجلی نہیں مل رہی، دیہی علاقوں میں ٹرانسمیشن کے بھی مسائل ہیں اس لئے بجلی چوری بھی ہورہی ہے۔ اتنی زیادہ پیدوار اگلے کئی سالوں میں پلان کی گئی ہے جس کا مستقبل میں فائدہ نہیں ہے۔‘‘