عمران خان کے ٹویٹر اکائونٹ سے نیا پیغام جاری کر دیا گیا۔
عمران خان کے ٹویٹر اکائونٹ سے کی گئی ٹویٹ میں لکھا گیا کہ 7 مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ9 مئی پر ہمیں معافی نہیں دیں گے۔ ہمارا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ معافی مظلوم نہیں، ظالم مانگتا ہے۔ 9 مئی کو عدالت کے شیشے توڑ کر مجھے اغوا کیا گیا ،جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔ ہمارے درجنوں کارکنان کو شہید، سینکڑوں کو اغواء اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا، گھروں کے تقدس کو پامال کیا گیا اور صرف سیاسی وابستگی کے جرم میں لوگوں کے کاروبار تباہ کر دئیے گئے۔ اس فسطائیت کے تناظر میں معافی تو مجھ سے اور تحریک انصاف سے مانگنی چاہیے۔
ٹویٹ میں مزید لکھا کہ میرے بیان کو بلا سیاق و سباق چلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ میرا موقف شروع سے وہی ہے کہ9 مئی ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، جس میں جرم کو چھپانے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کر دی گئی۔ میرا مطالبہ اب بھی وہی ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کو منظر عام پر لایا جائے اور اس کی روشنی میں شفاف تحقیقات کروائی جائیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد جو بطور تحریک انصاف کی نمائندہ 9مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے باہر موجود تھیں، انہیں متعدد ویڈیوز میں کارکنان کو پرامن رہنے کی ہدایات دیتے سنا جا سکتا ہے۔یہ ثابت کرتا ہے کہ 9 کو ہماری جماعت کا کوئی رہنما توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں شامل نہیں تھا۔ میری طرف سے میری جماعت اور کارکنان کو ہمیشہ ایک ہی ہدایت ہوتی ہے کہ پاکستان میں جہاں بھی احتجاج کریں پر امن احتجاج کریں۔ کنٹونمنٹ کا علاقہ ہو یا جی ایچ کیو ، ہمیں پاکستان کا آئین یہ حق دیتا ہے کہ ملک میں جب بھی ظلم ہو آپ کہیں بھی جا کر پر امن احتجاج کر سکتے ہیں – اگر شفاف تحقیقات کے نتیجے میں تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے والا کوئی رہنما جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملوث قرار پایا گیا تو اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔
جیل میں بیٹھ کر پیشگوئی کر رہا ہوں کہ حکومت کے پاس 2 ماہ سے زیادہ وقت نہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے نام ای سی ایل میں ڈالیں، یہ بھاگ نہ جائیں۔ کیسز بنائیں یا جیل میں رکھیں، میں ڈیل کرنے کو تیار نہیں؛ ڈیل وہ کرتا ہے جس نے کوئی جرم کیا ہو۔ میرا کوئی پیسہ باہر نہیں پڑا نہ کوئی جائیداد،میں نے سارے کیسز لڑے ہیں، مزید بھی لڑوں گا،مجھ پر اور میری اہلیہ پر کیسز کرنے کا مقصد پی ٹی آئی کو توڑنا تھا۔
مذاکرات کی خواہش کو کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے۔ میرے لیے میرا ملک پاکستان مقدم ہے اور اسی کے سیاسی و معاشی مفاد کے لیے میں کشیدگی میں کمی کا حامی ہوں۔ مذاکرات مشروط اور اصل فیصلہ سازوں سے ہی ہونگے۔ حکومت میں موجود ریلو کٹے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے ملکی مفاد کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں۔ یہ ریلو کٹے فوج کو ورغلاتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ختم کر دو۔ کیا 90 فیصد عوام کی نمائندہ جماعت کو ختم کرنا ممکن ہے؟ جو بھی یہ خواب دیکھ رہا ہے، اسے تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔
جس طرح مغربی عدالتوں نے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی اجازت دی ہوئی ہےاسی طرح قاضی فائز عیسٰی نے ریاست کے ساتھ ہم پر ظلم کرنے میں مکمل شراکت داری کی ہے اور ان کا اس ظلم اور فسطائیت میں پورا پورا ساتھ دیا ہے۔اسی تعصب اور انصاف کی عدم فراہمی کی بنیاد پر ہم نے کافی عرصے سے قاضی فائز عیسٰی کی میرے مقدمات سے علیحدگی کی درخواست دے رکھی ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں بھی ہماری پارٹی سے بلے کا نشان چھین کر قاضی فائز نے جس طرح پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن کی سہولت کاری کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
بنگالی عوام نے اپنے حقوق اور جمہوریت کی بقا کے لیے متحدہ اور پرعزم جدوجہد کر کے جس طرح ملک میں رائج جابرانہ نظام سے چھٹکارہ حاصل کیا، وہ قابل ستائش ہے۔ اس سارے احتجاج میں ابھی تک جس طرح بنگالی چیف آف آرمی سٹاف نے غیر سیاسی رہتے ہوئے معاملے سے نمٹا، وہ ان کی پیشہ وارانہ اخلاقیات کی دلیل اور قابل تعریف ہے۔ آرمی کو بطور پروفیشنل ادارہ اور اس کے آرمی چیف کو اس قسم کی صوتحال میں “غیر سیاسی” رہنا چاہیے۔
فوج ایک قومی ادارہ ہے اور فوج ہم سب کی ہے- اس کی ساکھ کا خیال ہم سب نے کرنا ہے- لیکن اپنی ساکھ کا سب سے زیادہ خیال فوجی قیادت نے خود کرنا ہے۔ خود احتسابی بہت مفید عمل ہے۔ مشرف سمیت آپ سب نے ہمیں بتایا کہ یہ چور ہیں اور جب پوری قوم نے آپ کی اس بات پر یقین کر لیا اور مان لیا کہ یہ چور ہیں اور انہوں نے ملک لوٹا ہے تو مشرف نے ان چوروں کو این آر او دیا اور پھر آپ نے ان کو این آر او ٹو دینے کا فیصلہ کیا- پھر ان چوروں نے اپنی مرضی کے قوانین بنوائے- ان کو انتخابات میں بد ترین شکست ہونے کے باوجود آپ نے ان کے لیے دھاندلی کر کے ان کو اقتدار دیا- آپ چوروں کے ایک ایسے ٹولے کا مسلسل ساتھ دے رہے ہیں جن کی ترجیح ذاتی مفاد ہے، انہیں نہ عوام سے کوئی لگاؤ ہے نہ ملک کی فکر۔ تو جب آپ ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں جن کو عوام نے آٹھ فروری کو مسترد کیا ہے تو اس طرح عوام میں آپ کا کیا تاثر جائے گا؟ آپ کو خود عوام میں آپ کے تاثر کا خیال رکھنا چاہیے-