وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صنعتوں کو بچانے اور اضافی بجلی کی کھپت کے حوالے سے کہا ہے کہ کہ فیکٹریوں کو ایک شفٹ کےلیے سستی بجلی دی جائےاور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے صنعتی ترقی کی روشنی میں ہونگے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نےکہا ہے کہ تھر کے کوئلے سے پورے ملک کےلیے سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس وقت ہم تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو سندھ استعمال نہیں کر رہا، یہ بجلی سندھ سے فیصل آباد جاتی ہے۔ ہم نے قومی مفاد کے منصوبوں پر پیسا لگایا ہے، چاہتے تو اپنے ہاں ایک چمکیلا منصوبہ بنا دیتے اور اس پر سیاست کرتے لیکن ہم پورے ملک کا سوچتے ہیں۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ایک طرف ہم چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن ہماری ضرورت 30 ہزار میگاواٹ ہے۔ اضافی دس ہزار کے پیسے ہم عوام سے وصول کر رہے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں، میری تجویز ہے کہ جو فیکٹریاں اآٹھ گھنٹے کی ایک شفٹ لا رہی ہیں ، ان کو دوسری چلانے کی ہدایت کی جائے اور دوسری شفٹ کےلئے بجلی کم نرخوں پر فراہم کی جائے۔ ہم بجلی کو سستا کرینگے تو ڈیمانڈ بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے صنعتی ترقی کی روشنی میں دیکھنے ہونگے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد جلسے کے حوالے سے واضح پیغام
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے دس سال پہلے کہا تھا کہ قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کریں، تھر کے کوئلے کی بات سب سے پہلے ہم نے کی۔ اس وقت ہماری نہیں سنی گئی۔ اس وقت تمام وہی منصوبے بن رہے ہیں جو ہم نے کہے تھے۔ تھر کے کوئلے سے پورے ملک کےلیے سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس وقت بھی تھر سے 3 ہزار میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں جو نیشنل گرڈ میں شامل ہو کرسیدھا فیصل آباد جاتی ہے۔ وہ بجلی سندھ استعمال نہیں کررہا۔ ہم اپنی پیدا کردہ گیس بھی استعمال نہیں کر رہے حالانکہ آئین میں لکھا ہے کہ جو قدرتی وسائل پر سب سے پہلے متعلقہ صوبے کا حق ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ تھر میں ڈاکٹر ثمر مبارک کا پروجیکٹ وفاقی حکومت کا تھا،وہ پروجیکٹ نہیں چل سکا اب ہم اس کے اثاثے سنبھال رہے ہیں، صوبائی حکومت بجلی پیدا کر سکتی ہے اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن بھی کر رہی ہے، مگر یہ سارے کام وفاقی حکومت کر رہی ہے، سندھ حکومت نے 2014 میں ٹراسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی بنائی، کمپنی نے نوری آباد تا کراچی بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی، اب ہم نے بجلی بنانے کی کمپنی بنائی ہے، اب سندھ حکومت خود ٹیرف مقرر کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ نے گھر بیٹھے گاڑی رجسٹرڈ کروانے کی سہولت متعارف کروادی
کراچی اور لاہور کے موازنے پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ دونوں شہروں کے ڈیزائن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں کراچی سے چھ فیصد زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا ڈیزائن ایسا ہے۔ کراچی کے ڈیزائن کے مطابق پچیس ملی میٹر بارش معمول کی ہے۔ لاہور کا اگر کراچی سے موازنہ کریں گے تو لاہور میں ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش ضروری ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت 21 لاکھ گھر سیلاب متاثرین کیلئے بنا رہی ہے، ہر گھر میں ایک پکا کمرا اونچائی پر بنا رہے ہیں،ہر ایک گھر پر تین لاکھ روپے لاگت آ رہی ہے، مکان کی تعمیر میں گھر میں رہنے والے خود مزدوری کر رہے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس کے سوال پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ جو رقم سرکار کے پاس ہے وہ عوام کی امانت ہے، ہم عوام کا پیسہ عوام پر لگا کر ان کی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں، لوگوں کی انشورنس کر کے 50 فیصد انشورنس کمپنی اور نجی اسپتالوں کو دینا نہیں چاہتے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی فنڈز سرکاری اسپتالوں پر لگا کرعوام کا مفت علاج کریں، ہمارے جے پی ایم سی، این آئی سی وی ڈی، این آئی سی ایچ، سائبر نائف، گمبٹ اسپتال بہت کامیاب ہیں، این آٗئی سی وی ڈی کے 30 چیسٹ پین یونٹس ہیں اور وہ شہر کے مختلف علاقوں میں لگائے ہیں۔