سربراہ جمعیت علمائے اسلام اور رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا حکومت کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار ہے؟ کیا حکومت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ خود فیصلے کر سکے، یا پھر اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان میں بات چیت ہونی چاہیے تاکہ ملک میں بڑھتے ہوئے اضطراب کو ختم کیا جا سکے؟
تفصیلات کے مطابق اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو ملک کے لئے غیر ضروری سمجھنا ایک سنگین غلطی ہے۔ انہوں نے سیاست دانوں کو بااختیار بنانے پر زور دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ تجربہ کار رہنماؤں کو نظر انداز کرنے اور ان کی جگہ ناتجربہ کار اور جذباتی افراد کو لانے سے پیچیدہ مسائل جنم لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑی اور موٹر سائیکل مالکان کے لیے اہم خبر
مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ سی پیک اور دیگر معاملات میں رکاوٹیں سامنے آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسمعیل خان اور لکی مروت کے علاقے مسلح قوتوں کے قبضے میں ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس بات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگانے کی بات کی کہ بعض علاقوں میں آج بھی اسکولوں اور کالجوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کا جھنڈا لہرایا جا سکتا، یہاں تک صورتحال خراب ہوچکی ہے ۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی اور یوٹیلیٹی اسٹورز کو ختم کیا جا رہا ہے، اور ہم ایسے قوانین کو ایوان میں مسترد کریں گے۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے سردار اختر مینگل نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے واضح طور پر کہا کہ ایوان میں اضطراب کی حالت ہے اور ہم یہاں ملک اور قوم کی خدمت کے لیے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی سرکاری ملازمین کیلئےنئی پنشن سکیم متعارف
انہوں نے کہا کہ کیا حکومت کو فیصلے کرنے کا اختیار ہےکیا ان کے پاس صلاحیت ہے فیصلہ کرنے کی یا اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود بات چیت کرے اور ملک کے اندر اضطراب کو ختم کرے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان ایک ایسی پراکسی جنگ لڑ رہا ہے جس سے ہمارا نقصان اور عالمی قوت اس کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔