خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس کا فوج کیخلاف احتجاج کی حقیقت کیا ہے؟ حکومت کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ صحافی عرفان خان نے معاملے کی حقیقت بیان کردی۔
آزاد ڈیجیٹل کے سینئر صحافی عرفان خان کا اپنے وی لاگ میں کہنا ہےکہ خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں گزشتہ تین دنوں سے احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج پولیس فورس کی جانب سے کیا جارہا ہے اوران کا مطالبہ ہے کہ ضلع لکی مروت میں دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے پولیس فورس کو اختیارات دیے جائیں اور وہاں پر جو فوج تعینات ہے اسے وہاں سے واپس بلایا جائے۔
آپکو بتاتے چلیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں پولیس فورس کی تعداد ایک لاکھ ستائس ہزا ر ہے جن کا ایک سربراہ بھی ہوتا ہے۔ جس کو انسپکٹر جنرل آف خیبرپختونخوا پولیس کہتے ہیں۔ ان سارے معاملات میں اب تک آئی جی صاحب نظر نہیں آرہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک لاکھ ستائس ہزار میں سے صرف ایک ضلع کے چند سو اہلکار اٹھ کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں تو کیا ان کا یہ مطالبہ جائز ہے؟۔ اگر ان کا مطالبہ جائز بھی ہے تو اس پولیس فورس کے سربراہ نے اس حوالے سے کیا اقدامات اُٹھائے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا دہشتگردی کے اس عفریت کا سامنا صرف ضلع لکی مروت کو ہے؟ کیا اس دہشتگردی سے دوسرے اضلاع بشمول شمالی وزیرستان، ٹانک، باجوڑمحفوظ ہیں؟ ایک ضلع کے چند سو پولیس اہلکار احتجاج پر اُتر آئے ہیںجبکہ سوشل میڈیا پر ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ پوری خیبرپختونخوا پولیس فورس اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور انہوں نے بغاوت کر دی ہے۔
بنیادی سوال تو یہ ہے کہ صوبے کے اندرونی معاملات کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے، کیا اس صوبے میںحکومت نام کی کوئی چیز ہے؟کیا اس صوبے میں پولیس فورس کے سربراہ بھی رہے ہیںاور انہیں معاملات کا ادراک ہے؟ان کو ان معاملات کی حساسیت کا احساس ہے؟ اگر ہے تو یقیناََ صوبائی حکومت اور پولیس سربراہ اپنے اہلکاروں کو ضرور اعتماد میں لیتے لیکن ابھی تک ایسا نظر نہیں آتا۔