جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضی نے کہا ہے کہ حکومت نے آئینی ترامیم کا مسودہ شیئر کر دیا ہے، لیکن انہیں ابھی یہ معلوم نہیں کہ حکومت کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ ابھی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کامران مرتضی نے کہا کہ مہمان نوازی اپنی جگہ ہے، لیکن ووٹ پارٹی کی پالیسی کے تحت دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے یو آئی (ف) حکومت یا پی ٹی آئی میں سے کسی کے ساتھ اتحاد میں نہیں جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: غیر آئینی ترامیم صرف عدلیہ پر اٹیک کرنے کیلئے کی جارہی ہے، بیرسٹر گوہر
دوسری جانب آئینی ترمیم کے معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے ، حکومت نے سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کر دیے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت نے مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کر دیے ہیں اور توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمن آئینی ترمیم کی حمایت کریں گے۔ حکومتی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ آئینی ترمیم ایک جامع پیکج ہے، جس میں ایک نئی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز شامل ہے۔
آئینی عدالت کے لیے ججز کی تقرری کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے، اور نئے ججز کی تقرری کی جائے گی۔ اس عدالت کا مقصد عام سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے اختلافی معاملات کو حل کر لیا ہے، جس کے بعد آج دونوں ایوانوں میں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہورمیں ہونیوالے پی ٹی آئی جلسے سےمتعلق حسن مرتضیٰ کااہم بیان آگیا
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومتی ارکان کی تعداد مکمل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اور منحرف ارکان کے ووٹ سے متعلق بھی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے لیے مسودہ تیار ہے، اور حکومتی اتحاد کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں بھی آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم مکمل ہو چکا ہے۔