سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی درخواست منظور کرتے ہوئوے اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے نظرثانی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی اپیل متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہے، جبکہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے معاملے پر جسٹس مظہر عالم کا اختلافی نوٹ 30 جولائی کو آیا، جبکہ بینچ کی اکثریت نے تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر کو جاری کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس مظہر عالم کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ ڈالنے اور شمار ہونے میں فرق ہے، کیا آئین میں یہ فرق واضح طور پر لکھا ہوا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ تضادات سے بھرپور ہے، ایک طرف کہا گیا کہ ووٹ بنیادی حق ہے، جبکہ دوسری جانب اس بنیادی حق کو پارٹی کی ہدایت پر ختم بھی کر دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حسبہ بل کیس کے مطابق ریفرنس پر رائے صرف اسی شخص پر لازمی ہے جس نے یہ مانگی ہو۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر صدر مملکت رائے پر عمل نہ کرے تو کیا ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ عدالت صدر مملکت کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔
فاروق ایچ نائیک نے تحریک انصاف کی عائشہ گلالئی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے منحرف رکن کے بارے میں بات کی، جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ نے نام غلط لیا، آپ کو ان سے عوامی طور پر معافی مانگنی پڑ سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ گلالئی پشتو کا لفظ ہے، اس کا مطلب بھی دیکھیں۔
فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ 63 اے کیس میں اقلیتی ججز کا فیصلہ پہلے جاری ہوا تھا۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے متفقہ طور پر نظرثانی درخواستیں منظور کر لیں۔