سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی نظر ثانی درخواست خارج کر دی

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی نظر ثانی درخواست خارج کر دی

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کی۔

تفصیلات کے مطابق پی ٹی ائی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی جس میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی تین رکنی خصوصی بینچ کا حصہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور انہوں نے لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا کی ، حامد خان نے استدعا کی کہ کیس لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے کمیٹی کو بھیجا جائے،جس پر چیف جسٹس نےکہا کہ آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا کہ میں اب وہ کہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتاتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر بات کرنےکی بجاے منہ پر بات کرنے والےکو میں پسند کرتا ہوں۔حامد خان نے کہا کہ میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو،۔

مزید پڑھیں: 26 ویں آئینی ترمیم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دلچسپ ریمارکس

چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپ کو مجبور نہیں کر سکتا جس پر وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے کہا کہ مجھے دلائل نہیں دینے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب نیازی صاحب وزیراعظم تھے تو انٹرپارٹی انتخابات کے لئے نوٹس جاری ہوا یا تب بھی نہیں کروایاگیا ۔ ایسا تو نہیں کہ آپ لوگ انٹرپارٹی انتخابات کے لئے دلچسپی نہیں رکھتے؟ اور عوام سے ہمدردی لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انتخابات کروانے کا تو دو ہفتے کا وقت دیاگیاتھا جس پر حامد خان نے کہاکہ کہا جارہا ہے کہ ہم نے پارٹی الیکشن کرایا ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کرایا ہے جناب نے اسے کالعدم قرار دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کی پارٹی الیکشن کا آئین بہت شفاف ہے۔یا تو آپ ایسے آئین کو بدل دیں یا اس کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کروائیں۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے 26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کر دیئے

بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگئے، 26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بینچ اب یہ کیس سن ہی نہیں سکتا، نہ ہم اسکے سامنے دلائل دیں گے۔جس پر چیف جسٹس کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کسی ترمیم کا ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے۔ہمیں نہ بتائیں ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ بیرسٹر علی ظفر اور حامد خان نے روسٹرم چھوڑ دیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا توحامد خان نے کہا کہ حکم نامہ لکھنا ہے تو میرا پورا موقف لکھیں کہ میں نے دلائل کیوں نہیں دیئے۔لکھیں کہ میں نے انتہائی متعصب جج کے سامنے دلائل سے انکار کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہاں لکھا ہے کہ ہم متعصب ہیں؟ اور ایڈووکیٹ حامد خان نےکہا کہ میں نے اس عدالت کے سامنے یہ کہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں نا بتائیں حکم نامے میں کیا لکھنا ہے کیا نہیں۔

مزید پڑھیں: آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب آج ہوگی

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ متفرق درخواست مین آپ نے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں سیاست کو مت لائیں اور پہلے وکیل سیاست عدالت سے باہر رکھ کر آتے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، جس پر حامد خان بولے کہ اس بینچ کے سامنے دلائل نہیں دینا چاہتا۔انہوں نے کہا اکہ جب آئینی ترمیم بھی آ چکی ہے اورآئینی ترمیم کے بعد یہ کیس آئینی بینچ کو جانا چاہیے ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے کوئی ترمیم نہیں دیکھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ 185/3 کے مقدمہ میں آپکی آرٹیکل 188 کی نظر ثانی کی درخواست ہے ، جسٹس مظہر نے کہا کہ یہ آرٹیکل 184/3 کا مقدمہ نہیں ، جسٹس مظہر نےکہاکہ مجھے بھی ترمیم کا کوئی اندازہ نہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *