بشریٰ بی بی کی اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد مختلف حلقوں میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ شاید کوئی ڈیل ہوئی۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی طرف سے بشریٰ بی بی کی رہائی میں کردار کے دعوے کے بعد شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔
گنڈاپور کے ترجمان بیرسٹر سیف نے تصدیق کی کہ گنڈا پور نے بشریٰ بی بی کی رہائی میں اپنا کردار ہونے کا ذکر کیا تھا۔ جب ان سے براہِ راست پوچھا گیا تو گنڈا پور نے اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی، جس سے قیاس آرائیاں اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس رہائی کے پیچھے کس نے کیا کردار ادا کیا اور کن یقین دہانیوں کے ساتھ رہائی ممکن ہوئی، یہ تاحال واضح نہیں ہے۔
بشری بی بی کا رہائی کے بعد پشاور میں قیام اس انتشاری جماعت کے پروپیگینڈے کو مزید تقویت دیتا ہے۔ وہ کس حیثیت سے سرکاری رہائش گاہ میں قیام پذیر رہیں ؟ کس حیثیت سے وہ پارٹی کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں؟ بانی پی ٹی آئی کامورثی سیاست کابیانیہ کیاجھوٹ پرمبنی تھا؟۔ کیا بشری بی بی کا پشاور میں قیام مزید انتشار پھیلانے کے لیے ہے ؟ یہ تمام سوالات غور طلب ہیں اور انتشاری سیاست کی واضح عکاسی کرتے ہیں
یہاں یہ بات اہم ہے کہ یہ جماعت اس وقت شدید گروپ بندی اور خلفشارکا شکار ہے۔ علیمہ خان اور بشری بی بی کی پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور لڑائی، احتجاجی سیاست اور جلوسوں میں عوام کی عدم شرکت پی ٹی آئی کے لیے بحیثیت جماعت بہت بڑی ناکامی ہے۔
ان تمام عوامل کے باعث یہ جماعت کبھی امریکا، کبھی برطانیہ اور کبھی دیگر ممالک میں لابنگ کرکے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے کوشاں ہے جس سے ایک جانب ان کا یہ بیانیہ کہ ہم کوئی غلام ہیں زمیں بوس ہو گیا ہے جبکہ اس سے پاکستان کے خارجہ تعلقات بھی متاثر ہوۓ۔ یہ جماعت صرف اور صرف اپنے مذموم مقاصد سیاسی مقاصد کیلئے یہ سب کچھ کر ہی ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اس میں اب کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی میں تقسیم کا عمل تیز ہو چکا ہے، انتشار اور خلفشار کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سینئر رہنما پریشان ہیں۔
ایک جانب سینئر رہنما آپس میں لڑ رہے ہیں اور اب بشریٰ بی بی کی رہائی اور ان کا پشاور جا کر بیٹھنا اور گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد لاہور زمان پارک جانا اختلافات کو واضح طور پر ثابت کرتا ہے اسی طرح علیمہ خان کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے بھی سینئر قیادت پریشان ہے اور اس حوالے سے وہ کئی بار بانی پی ٹی آئی سے بات کرچکے۔ اس گروپ بندی نے پی ٹی آئی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔