جمیعت علماے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عجلت میں قانون سازی آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی توہین ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کو ہم نے ایجنڈے سے نکلوا دیا تو اس کے بعد پھر یہ قانون لانا کہ فوج کو اختیار ہوگا کہ وہ شک کی بنیاد پر کسی کو بھی تین ماہ کے لیے حراست میں لے سکتی ہے اور پھر اس میں اضافہ کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ کیا حکومت کو شعور نہیں ہے کہ یہ آرٹیکل 8 کو جسے نکالا گیا تھا دوبارہ اسی کی بحالی ہے، عوام کے حقوق کی نفی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عوام کے نہیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں ، ان کا طرز عمل الیکشن کے نتائج پر ہمارے رائے کی تائید کررہاہے ، اس لیے انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ ایک طاقتور کو مزید طاقتور بنانا اور ان کی گرفت کو مضبوط بنانا یہی سیاستدانوں کی کمزوری ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسمبلیاں مینیج کی جاتی ہیں اگر اسٹیبلشمنٹ کسی کو ایوان صدر یا صوبے کی حکومت عطا کرے گا تو پھر ان سے خدمات لے گا یہ سب کچھ عوام، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی توہین ہے، اس پر میں واپس جاکر بات کروں گا دلائل سے بات کروں گا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئی آئینی ترمیم آنے کا امکان نہیں ہے، سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے کے بل کا حکومتی اراکین کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو بھی پتہ نہیں ہوگا، انہوں نے آئین پارلیمنٹ اور جمہوریت کی توہین کی ہے ۔
مولانا فضل الرحمن کا کہناتھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو اب جمہوریت کی بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، اس حکومت کو ایک دن بھی پورا کرنے کا حق نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی کی ڈیل کی خبروں پر تبصرہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں ۔
ان کاکہنا تھا کہ کشمیریوں نے کشمیر کے لیے خود ہی کچھ کرنا ہے، کشمیریوں نے مودی کی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے، ہندوستان میں شعور آیا ہے، اب مسلمانوں اور کشمیریوں کو مطمئن کئے بغیر معاملات نہیں چلائے جاسکتے ۔