آئی ایم ایف نے پاکستان کی حکومت سے زرعی شعبے پر انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کا مطالبہ کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبہ کیا ہے کہ سالانہ 60 لاکھ روپے کمانے والے کسانوں پر 45 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات پر بات چیت کرنے کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا چوتھا دور آج شروع ہوگا، جس میں زرعی شعبے سے انکم ٹیکس کے معاملات پر خصوصی سیشنز ہوں گے۔
مذاکرات کے دوران زرعی شعبے سے انکم ٹیکس کی آمدنی بڑھانے کے لیے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کو پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں صوبوں کی وزارت خزانہ اور محکمہ زراعت کے حکام بھی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر خزانہ مزمل اسلم بھی اس وفد کا حصہ ہوں گے، تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور آئی ایم ایف سے مذاکرات کا حصہ نہیں ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ زرعی شعبے پر انکم ٹیکس کی شرح کو کارپوریٹ سیکٹر کی طرح 45 فیصد کر دیا جائے۔ اس کا مقصد زرعی آمدنی پر ٹیکس وصولی بڑھانا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ زرعی شعبے سے سالانہ 60 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر 45 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے، جس سے حکومتی خزانے میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔
مذاکرات میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ٹیکس اتھارٹیز آئی ایم ایف کے اہداف پر بریفنگ دیں گی اور زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی آئندہ مالی سال سے شروع کر دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق زرعی شعبے سے انکم ٹیکس کی آمدنی بڑھانے کے لیے ضروری قانون سازی 31 اکتوبر تک مکمل کی جانی تھی۔