ادویات خریداری کی مد میں خزانے کو اربوں کا ٹیکہ، خیبرپختونخوا حکومت نے انکوائری مکمل کر لی

ادویات خریداری کی مد میں خزانے کو اربوں کا ٹیکہ، خیبرپختونخوا حکومت نے انکوائری مکمل کر لی

تیمور خان
خیبر پختونخوا حکومت نے ادویات کی مد میں خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کی انکوائری مکمل کر لی جس میں اربوں روپے کی ادویات سپلائی نہ کرنے کے علاوہ 30 ضروری ادویات کی مہنگے داموں خریداری سے خزانے کو مجموعی طور پر 1 ارب 51 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ہے۔

کینولہ کی خریداری کی مد میں 15 کروڑ 88 لاکھ، سات اینٹی بیاٹیکس کی مد میں 55 کروڑ 96 لاکھ، گلوز میں 46 کروڑ، کاٹن میں 14 کروڑ 64لاکھ، انجکشن کی مد میں 7 کروڑ 66 لاکھ اور انفیوژن کی مد میں 11 کروڑ 34 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

موجودہ حکومت نے نگران دور حکومت کے وقت ادویات خریداری سے متعلق تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں کی نشاندہی کیلئے 4 جون 2024 کو وزیر اعلی کے مشیر برائے اینٹی کرپشن برگیڈئیر (ر) محمد مصدق عباسی کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری پی اینڈ ڈی، پرانسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلی، سیکرٹری فنانس اور اسٹیبلشمنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈرگز شامل ہیں ، اسی ہی کمیٹی نے مزید تین انکوائریاں کرکے رپورٹ کو فائنل کردیا اور انہوں نے ہسپتالوں میں 30 ضروری ادویات کے استعمال اور اس کے نرخ سے متعلق بھی ڈیٹا تیار کرلیا ہے۔

آزاد ڈیجیٹل کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق صوبہ بھر کے ٹیچنگ ہسپتالوں کے علاوہ باقی ماندہ ہسپتالوں میں سالانہ تقریباً 39 لاکھ 17 ہزار 499 چار قسم کے کینولہ کا استعمال ہوتا ہے جس کو مالی سال 2023-24 میں 611 روپے پر خریدا گیا لیکن رواں مالی سال 2024-25کے دوران اس کے ریٹ بڑھ جانے کے بجائے کم ہوئے اور 453 روپے پر خریدا گیا۔

سات قسم کی اینٹی بائیوٹکس ایک سال کے دوران تقریباً 57 لاکھ 34 ہزار 936 استعمال ہوتی ہیں جس کو پچھلے مالی سال 3 ہزار 51روپے پر خریدا گیا جبکہ رواں مالی سال اس کو 1 ہزار 643 روپے پر خریدا گیا۔ تین قسم کے گلوز (دستانے) کا سالانہ استعمال 11 لاکھ 47 ہزار 600 ہے جس کو گذشتہ مالی سال 2 ہزار 573 روپے پر خریدا گیا جبکہ رواں مالی سال اس کو 1 ہزار 480 روپے پر خریدا گیا۔ آٹھ قسم کے گاز اور کاٹن بینڈج کا سالانہ استعمال تقریباً 18 لاکھ 54 ہزار 741 ہے جس کو 4 ہزار 798 روپے پر خریدا گیا جبکہ رواں مالی سال اس کی خریداری 3 ہزار 193 روپے پر کردی گئی۔

یورپ کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی ختم، ائیر بلیو کیلئے بھی خوشخبری

ڈروٹویران 40 ایم جی انجکشن کا سالانہ استعمال 7 کروڑ 66 لاکھ 45 ہزار 950 ہے جس کی خریداری پچھلے سال 73 روپے پر کی گئی تھی لیکن رواں مالی سال اس کی خریداری 11 روپے پر کی گئی۔ سات اقسام کے انفیوژن کا استعمال سالانہ 11 کروڑ 33 لاکھ 53 ہزار 252 ہے جس کی خریداری پچھلے مالی سال کو 745 روپے پر جبکہ رواں مالی سال اس کی خریداری 256 روپے پر کی گئی ہے۔

حیران کن طور پر پچھلے مالی سال کریم انڈسٹریز نے جس سرجیکل کاٹن کی قیمت 299 روپے لگائی تھی امسال اس کا نرخ اسی ہی کمپنی نے 247 روپے لگایا ہے۔ بوش کمپنی نے پچھلے سال جس انجکشن کا ریٹ 600 روپے لگایا تھا رواں سال اسی ہی انجکشن کا ریٹ 324 روپے لگایا ہے۔

رابطہ کرنے پر میڈیسن کوارڈنیشن سیل (ایم سی سی) کے رکن انعام الحق جو پچھلے سال بھی کمیٹی کے ممبر تھے نے بتایا کہ پچھلے سال کمپنیوں کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر ریٹ بڑھا کر خزانے کو مالی نقصان پہنچایا گیا جبکہ اس بار ہیراپھیری نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق انہوں نے پچھلے سال بھی طریقہ کار پر اعتراض کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں اظہارِ ناراضگی کا لیٹر بھی ملا ۔

سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم نے پچھلے 4 ارب 40 کروڑ روپے ادویات خریداری کے آرڈرز دئیے تھے جن میں 3 ارب 17 کروڑ روپے فرمز کو ایڈوانس میں ادا کئے گئے تھے۔ اس میں 1 ارب 90 کروڑ روپے کی ادویات سپلائی بھی نہیں کی گئی تھی جبکہ ڈی جی ہیلتھ نے ہسپتالوں اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سنٹرل خریداری کی تھیں جس پر ٹرانسپورٹیشن کی صورت میں الگ خرچہ ہے ۔

اس مرتبہ سنٹرل خریداری کے طریقہ کار کو ختم کر دیا گیا اور ذرائع کے مطابق اس کے لیے صوبائی حکومت قانون سازی بھی کرنے جا رہی ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی بد انتظامی اور بے ضابطگی کا سدباب کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ضروری ادویات کی فہرست سے کنڈوم اور ڈریپ شیٹ کو بھی نکال دیا گیا ہے۔

سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی جو ایم سی سی کے سربراہ بھی تھے نے رابطے پر موقف اختیار کیا کہ ان کو نقصان پہنچانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جبکہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اینٹی کرپشن بریگیڈئیر (ر) مصدق عباسی کی کمیٹی کو عدالت میں چیلنج بھی کر رکھا ہے کیونکہ قانونی طور پر کوئی سیاسی شخصیت گریڈ 20 کے افسر کی انکوائری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے علاوہ دیگر جتنی بھی انکوائریاں ہوئی ہیں وہ یکطرفہ ہیں اور اسی ہی انکوائری کی بنیاد پر انہیں چارج شیٹ بھی کیا گیا ہے۔ اس سوال کے جواب پر کہ ان کے دور میں مہنگے داموں ادویات کی خریداری کیوں کی گئی پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریداری کی ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ موجودہ ایم سی سی نے انہی کمپنیوں سے ایک جیسے آئٹم کم قیمت پر خریدے ہوں۔

ذرائع کے مطابق انکوائری کمیٹی نگران دور حکومت میں اس وقت کے سیکرٹری صحت ڈاکٹر اسلم محمود اور نگران وزیر ڈاکٹر ریاض انور کو بھی طلب کیا تھا جبکہ سیکرٹری فنانس اسلم ترین کو بھی کمیٹی نے استفسار کیا کہ انہوں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کی بجائے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کو فنڈز کیوں جاری کیے۔ سیکرٹری فنانس نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان پر 9 ارب روپے ادویات کے لیے جاری کرنے کا دباؤ تھا لیکن انہوں نے اس کے باوجود بھی تمام فنڈز جاری نہیں کیے۔

ٹیکنیکل کمیٹی کے سیکرٹری، فزیکل انسپکشن آف دی فرمز خیبر پختونخوا ریجن کے کمیٹی اور سٹاک ویری فیکشن کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر ارشاد روغانی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں طلب نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ان سے پوچھ گچھ ہوئی ہے جبکہ پچھلے سال رولز کے تحت ہی خریداری ہوئی تھی۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *