پاکستانیوں کے لیے ویزا مسترد ہونے کی بڑی وجوہات میں حکومتی سطع پر بیرونِ ملک افرادی قوت برآمد کرنے سے متعلق امور بارے کبھی خصوصی توجہ نہ دینا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کو یورپی ممالک کے بعد اب خلیجی ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں اپنی ویزا درخواستوں کے مسترد ہونے کی وجہ سے ایک اور چیلنج کا سامنا ہے جو کہ روزگار اور ترسیلات زر کی ایک اہم منزل ہے۔ گھریلو مسائل ، روزگار کی عدم فراہمی ، مہنگائی اور توانائی کی بلند قیمتوں سے دوچار بہت سے پاکستانی بیرون ملک مواقع کو اپنی واحد لائف لائن سمجھتے ہیں۔ تاہم، خلیج میں ویزا پالیسیوں میں سختی ان کی مایوسی کو بڑھا رہی ہے۔
ابوظہبی میں پاکستانی سفارت خانے نے حال ہی میں سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر گردش کرنے والے وسیع افوہوںکی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ویزا پابندی کی کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی گئی ہیں۔ تاہم متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل ترمذی نے ویزا مسترد ہونے میں غیر معمولی اضافے کو تسلیم کیا ہے۔
دو ماہ قبل دبئی میں GITEX (گلف انفارمیشن ٹیکنالوجی نمائش) گلوبل 2024 کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے مسترد ویزا درخواستوں کے حوالے سے کہا کہ حکومتی سطح پر پیشہ ورانہ مہارت ، اورافرادی قوت کی برآمد کے راستے تلاش کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ پاکستان کو گزشتہ دو سالوں کے دوران ایک تاریخی برین ڈرین کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ بگڑتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات ہنر مند اور غیر ہنر مند کارکنوں کو بیرون ملک لے جا رہے ہیں۔
ویزا درخواستوں کے مسترد ہونے کی وجہ سےبیشتر نوجوان غیر قانونی سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں جیسے کہ ویزوں سے زیادہ قیام کرنا، بھیک مانگنا، یا زندہ رہنے کے لیے مختلف غیر قانونی اور دھوکہ دہی میں ملوث ہونا۔ یہ کارروائیاں ان کے ذاتی ریکارڈ کو نقصان پہنچاتی ہیں اور وسیع تر پاکستانی کمیونٹی کی ساکھ کو داغدار کرتی ہیں، جس سے دوسروں کے لیے مستقبل میں ویزا اور روزگار کے مواقع حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بیرون ملک بہتر مواقعوں کےحصؤل کے لیئے پاکستان فلپائنی ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ سکلز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (TESDA) کی تقلید کر سکتا ہے، جو عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مہارت کی تربیت اور سرٹیفیکیشن پیش کرتا ہے۔ اس میں دیکھ بھال، IT، صحت کی دیکھ بھال، اور زبان کی مہارتوں کی تربیت شامل ہے۔
بین الاقوامی تربیتی مراکز کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے اور بیرون ملک مقیم اداروں کو تسلیم کرنے سے پاکستانی کارکنوں کی عالمی ملازمت میں اضافہ ہوگا۔روانگی سے پہلے، کارکنوں کو لیبر قوانین، مالی خواندگی، ثقافتی موافقت، اور میزبان ممالک میں اپنے حقوق کے بارے میں تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ اس طرح کی تیاری استحصال کو کم کر سکتی ہے اور میزبان ملک کی افرادی قوت میں انضمام کو بڑھا سکتی ہے۔
فلپائن نے مختلف میزبان ممالک کے ساتھ مہارتوں اور قابلیت کی باہمی شناخت کے لیے معاہدے کیے ہیں۔ پاکستان کو ایسے ہی معاہدوں کو ترجیح دینی چاہیے، خاص طور پر خلیجی ممالک میں، تاکہ ہنر مند کارکنوں کی آسانی سے منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔