حکومت نے تمام محکموں میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو مرحلہ وار کم کرنے پر غور شروع کر دیا تاکہ علیحدگی کے اخراجات میں ابتدائی اضافے کو کنٹرول کیاجا سکے۔
حکومت کے اس اقدام کے تحت پبلک سیکٹر کارپوریشنز، ریگولیٹری اتھارٹیز اور پروفیشنل کونسلز کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ بھی ریٹائرمنٹ کی عمر میں کٹوتی کریں۔ متعلقہ ادارے یہ اصلاحات وفاقی وسائل پر انحصار کیے بغیر اپنی مالی استطاعت کے مطابق نافذ کریں گے۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں کئی اہم پنشن اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں رواں مالی سال سے نئے سول سرکاری ملازمین اور اگلے مالی سال سے فوجی بھرتیوں کے لیے کنٹریبیوٹری پنشن فنڈ سکیم کا آغاز ہے۔ اس سکیم کے تحت وفاقی ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ پنشن فنڈ میں جمع کرائیں گےجبکہ حکومت اس فنڈ میں 20 فیصد حصہ ڈالے گی۔
دیگر اصلاحات میں پنشن کا حساب لگانے کا نظر ثانی شدہ فارمولا، قبل از وقت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانے، متعدد پنشنوں کا خاتمہ، فیملی پنشن کے نظام میں تبدیلی اور مستقبل میں اضافے کے طریقہ کار شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنشن کی ذمہ داریاں بڑی حد تک فنڈز سے محروم ہیںکیونکہ گزشتہ دہائی کے دوران فوجی پنشن سمیت وفاقی پنشن اخراجات میں 5 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ اسی عرصے کے دوران ٹیکس محصولات میں صرف 2.7 گنا اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں پنشن کے واجبات میں اضافہ عوامی محصولات میں اضافے سے زیادہ ہو چکا ہے، جو کہ وفاقی حکومت کی خالص محصولات کی وصولیوں کا 12 فیصد استعمال کر رہا ہے۔
یہ تناسب ایک دہائی قبل 8.9 فیصد تھا۔حکومت کی یہ اصلاحات بنیادی طور پر پنشن کے اخراجات کو کنٹرول کرنے اور مالی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ہیں تاکہ مستقبل میں پنشن کے نظام میں استحکام اور دیرپا پائیداری حاصل کی جا سکے۔