پشاور: خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی کابینہ کی تشکیل کے وقت اگرچہ نئے چہروں کو سامنے لایا گیا ہے لیکن کچھ اضلاع پر حد سے زیادہ مہربانی بعید از عقل ہے جبکہ بعض اضلاع کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا
ضلع صوابی سے تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں جیتیں اوراسی ہی ضلع سے جیتنے والے چار سمیت پانچ افراد کو قلمدان دئیے گئے ہیں ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ تیسری مرتبہ جیتنے والے رنگیز خان کو معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ، دوسری مرتبہ جیتنے والے عاقب اللہ کو اپنے بھائی سابقہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی وجہ سے اِریگیشن کا وزیر بنایا گیا، پہلی مرتبہ جیتنے والے شہرام ترکئی کے بھائی فیصل خان ترکئی کو محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا قلمدان سونپا گیا۔ عبدالکریم خان کو وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انڈسٹریز بنایا گیا ہے۔
اسی طرح کابینہ میں اپنی ’آنیوں جانیوں‘ کی وجہ سے شہرت کی حامل مشعال یوسفزئی کا تعلق بھی ضلع صوابی سے ہے جو فی الوقت صوبائی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں۔ جبکہ غیر منتخب مشیر برائے انفارمیشن بیرسٹر محمد علی سیف کا تعلق بھی ضلع صوابی سے ہے
دوسرے نمبر پر ضلع مردان ہے جس کے حصے میں ایک وزیر، ایک مشیر اور ایک معاون خصوصی ایا ہے ،اس ضلع سے دوسری مرتبہ الیکشن جیتنے والے ظاہر شاہ طورو کو وزیر محکمہ خوراک، پہلی مرتبہ الیکشن جیتنے والے احتشام خان کو مشیر محکمہ صحت اور تیسری مرتبہ الیکشن جیتنے والے طفیل انجم کو معاون خصوصی برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا قلمدان دیا گیا ہے۔
صوبائی دارالخلافہ پشاور سے متصل ضلع خیبر میں تحریک انصاف نے تین نستیں جیتیں جن میں سے دو ارکان کوقلمدان دیا گیا ہے۔ عدنان قادری کو وزیر برائے مذہبی امور اور سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے سی اینڈ ڈبلیو بنایا گیا۔ سوات سے فضل حکیم کو وزیر برائے لائیو سٹاک جبکہ ڈاکٹر امجد کو وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ہاوسنگ بنایا گیا ہے۔ ضلع ایبٹ آباد سے کامیاب ہونے والے نذیر عباسی کو وزیر ریونیو کا عہدہ دیا گیا ہے جبکہ اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے غیر منتخب بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) مصدق عباسی مشیر برائے اینٹی کرپشن ہیں۔ لوئر دیر سے دو ارکان کو معاون خصوصی کی سیٹیں دی گئی ہیں جن میں لیاقت علی کو پاپولیشن اور ہمایون خان کو جیل خانہ جات کے محکمہ دئیے گئے ہیں
کچھ اضلاع سے ایک ایک وزیر یا مشیر لیا گیا جس کی تفیصل کچھ یوں ہے، نوشہرہ سے خلیق الرحمان کو ایکسائز، ہری پور سے ارشد ایوب خان کو بلدیات، مانسہرہ سے زاہد چن زیب مشیر برائے سیاحت جبکہ اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے بابر سلیم سواتی کو سپیکر کا قلمدان دیا گیا ہے۔ نیز ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے پختونیار کو محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کا وزیر بنایا گیا ہے جبکہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نیک محمد خان کو معاون خصوصی برائے ریلیف بنایا گیا ہے۔ بونیر سے فخر جہان کو وزیر برائے کھیل، چارسدہ سے فضل شکور کو وزیر برائے لیبر، ملاکنڈ سے مصور خان کو معاون خصوصی برائے جنگلات، کوہاٹ سے آفتاب عالم کو وزیر قانون اور کرک سے میجر (ر) سجاد کو محکمہ زراعت کا وزیر بنایا گیا ہے جبکہ چترال اپر سے ثریا بی بی کو ڈپٹی سپیکر بنایا گیا ہے۔ پشاور سے پہلی مرتبہ الیکشن جیتنے والے سید قاسم علی شاہ کو محکمہ سوشل ویلفئیر اور مینا خان آفریدی کو محکمہ اعلیٰ تعلیم کی وزارت دی گئی ہے
باجوڑ اور اپر دِیر سے تین تین، لکی مروت اور مہمند سے دو دو سیٹیں جیتنے کے باوجود ان چار اضلاع کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ ایسے ہی دیگر اضلاع بٹگرام، اپر کوہستان، کولئی پالَس، شانگلہ، ہنگو، کُرم، اورکزئی اور ٹانک بھی نمائندگی سے محروم ہیں۔
سنیئر ارکان جو مسلسل جیتنے کے باوجود بھی نظر انداز ہیں ہوئے ان میں عارف احمد زئی، خالد خان، ادریس خٹک، فضل الٰہی، تاج محمد ترند اور مشتاق غنی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق سنیئر ارکان کی جگہ جونیئرز کو زیادہ ترجیح اس لیے دی گئی ہے کیونکہ سنیئرز اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جبکہ ’’پہلی مرتبہ جیت کر آنے والے زیادہ تابعدار ہوتے ہیں
رابطہ کرنے پر رنگیز خان نے بتایا کہ عمران خان سے وزیر اعلیٰ کی وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی ہیں اور پارٹی کے بانی چیئرمین کے کہنے پر ہی صوبائی کابینہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کابینہ کو تشکیل دیتے وقت کوئی واضح طریقہ کار نہیں اپنایا گیا ہے کہ کس کو کس بنیادپر قلمدان دیا جائے۔ ’’ماضی میں قلمدان رکھنے والے نظر انداز اور سابق وزیر اب معاونین بن گئے ہیں۔ اسی طرح دو وزراء کے محکمے تبدیل کیے گئے ہیں۔ اگر ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں تھی تو محکمے تبدیل کرنے کی بجائے قلمدان واپس لے لیے جانے چاہیے تھے۔