سینئر ماہر معاشیات و صحافی شہباز رانا نے کہا ہے کہ ملکی معیشت میں کچھ چیزیں بہتر ہوئی ہیں، ایکسٹرنل سیکٹر (ترسیلات اور برآمدات) بہتر ہوا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم ہوا ہے۔
سینئرماہرمعاشیات شہباز رانا نے کہا کہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت بہت اچھی ہو گئی ہے، ہاں یہ ہوا ہے کہ کچھ چیزیں منیج ہوئی ہیں، حکومت نے درآمدات کو چار سے ساڑھے ارب ڈالر کے اندر کنٹرول کرکے رکھا ہوا ہے ابھی دسمبر میں درآمدات اوپر گئی ہیں جو کہ 5.3 ارب ڈالر تک گئی ہیں، دو سال میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔
ایک چیز حکومت کے کریڈٹ پر ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے صرف اعلان کرنا باقی تھا اس فیز سے ہم نکل آئے ہیں اب ڈیفالٹ والی کوئی بات نہیں۔
حکومت نے یہاں سے وہ کام نہیں کرنا جو عمران خان نے کیا تھا کہ معیشت اسٹیبل ہوئی تو انہوں نے وہ چیزیں کھول دیں جو پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا تھا، امپورٹ زیادہ کھول دیں، حکومت کو کسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے کہ پاکستان کی اکانومی کو پانچ چھ فیصد کی گروتھ پر لے کر جانا ہے، یہ فوری طور پر نہیں ہو سکتا، پاکستان کی معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ہم ابھی کرائسز سے نکلے نہیں ہیں، ہم نے ڈیفالٹ کو بچا ضرور لیا ہے لیکن فنڈامنٹل ابھی بھی کمزور ہیں۔
سینئرصحافی شہباز رانا نے کہا کہ پاکستان کے جو حالات ہیں حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ درآمدات کو کنٹرول میں رکھے اور ڈالر کی قیمت کو اوپر رکھے، ٹیکس ریونیو بہتر ہے جو 25 سے 26 فیصد تک گروتھ دے رہے لیکن ہمیں چالیس فیصد گروتھ چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے عالمی ایجنڈے میں پاکستان کی اہمیت اتنی نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں کوئی فوری تبدیلی آئے۔ یہ نہیں کہ ٹرمپ فوری طور پر پاکستان کے کسی جیل میں موجود پاپولر لیڈر کی رہائی کے لئے کچھ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ عالمی سیاست میں فیصلے اپنی قومی مفادات کی بنیاد پر کرتا ہے، اور پاکستان جیسے ممالک سے متعلق پالیسیوں میں یہ مفاد غالب ہوتا ہے۔