ڈپٹی کمشنرز کو پٹرول پمپس سیل کرنے اور جرمانہ کرنے کا اختیار نہیں، لاہور ہائیکورٹ

ڈپٹی کمشنرز کو پٹرول پمپس سیل کرنے اور جرمانہ کرنے کا اختیار نہیں، لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) آرڈیننس 2002 کے نفاذ کے بعد، ڈپٹی کمشنرپٹرول پمپس کی جگہ کو سیل کرنے یا کوئی جرمانہ عائد کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

تفصیلات کے مطابق ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے پٹرول پمپ کی جگہ کو سیلِ کرنے یا جرمانے کرنے کے حوالے سے جاری فیصلہ میں کہا ہے کہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر یا ڈپٹی کمشنر کے پاس اتھارٹی کی طرف سے تحریری اجازت کے علاوہ معائنہ افسر کے طور پر کام کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

عدالت نے یہ حکم خان پیٹرولیم سروس کی جانب سے ان کے پیٹرول پمپ کو سیل کرنے اور 10 لاکھ روپے جرمانے کے خلاف دائر درخواست پر دیا۔ عدالت نے کہا کہ آئین نے ہر شہری کو تجارت، کاروبار اور پیشے کی آزادی سمیت بعض بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کیا ہے۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جب قانون کے تحت کوئی متبادل یا مؤثر علاج فراہم نہیں کیا جاتا ہے، تو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت صرف ایک رٹ پٹیشن ہی غیر قانونی حکم پر حملہ کرنے کا اہل ہے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ آئین کا آرٹیکل 199 اس عدالت کو عوامی کارکنوں کے ہاتھوں خلاف ورزی کے خلاف کسی بھی متاثرہ فریق کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب احکامات جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے، جو اپنے اختیارات یا اختیارات کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کو اتھارٹی کی جانب سے تحریری حکم کے علاوہ انسپکشن افسر کے طور پر کام کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ جواب دہندہ ڈپٹی کمشنر نے رولز 1971 کے رول 44 کے تحت 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا لیکن مذکورہ رول میں ایسے کوئی اختیارات اور جرمانے کی گنجائش نہیں ہے۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان آئل (ریفائننگ، بلینڈنگ، ٹرانسپورٹیشن، سٹوریج اور مارکیٹنگ) رولز 2016 کے تحت جواب دہندہ صرف اوگرا یا اس کے چیئرمین کو رپورٹ پیش کرنے کا پابند ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس نے اتھارٹی کے پاس تحریری طور پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کے لیے چھوڑ دیا تاکہ مطلوبہ افراد پر جرمانہ عائد کیا جا سکے۔

عدالت نے کہا کہ لاء آفیسر اتھارٹی کا کوئی ایسا حکم پیش کرنے میں ناکام رہا جس کے ذریعے جواب دہندہ کو قواعد کے تحت استعمال کیے جانے والے اختیارات تفویض کیے گئے ہوں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ مدعا علیہ نے سمری ٹرائل کے انداز میں غیر قانونی حکم جاری کرتے ہوئے قانون کی متعلقہ دفعات کو نظر انداز کیا۔

عدالت نے کہا کہ چونکہ درخواست گزار کے پاس غیر قانونی حکم پر حملہ کرنے کا کوئی علاج دستیاب نہیں تھا، اس لیے یہ رٹ پٹیشن آئین کے آرٹیکل 199(1)(a) کے دائرے میں آتی ہے، اس لیے اس عدالت کے سامنے قابل سماعت ہے۔ لہٰذا عدالت نے غیر قانونی اور قانونی اختیار کے بغیر حکم امتناعی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کی حد تک مواخذہ آرڈر قانون کی نظر میں برقرار نہیں رہ سکتا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *