بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ، شیخ حسینہ واجد، نے انکشاف کیا ہے کہ وہ گزشتہ سال مظاہرین کے غیض و غضب اور اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد جان بچا کر بھارت منتقل ہو گئی تھیں ۔ اپنے حالیہ آڈیو پیغام میں، جو بنگالی زبان میں جاری کیا گیا، انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے انھیں بچایا ورنہ اس بار بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
شیخ حسینہ نے ماضی کے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی جان کا بچنا اللہ کی کسی بڑی حکمت کا حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر قتل کی سازش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ مخالفین نے انھیں راستے سے ہٹانے کی کس طرح کوشش کی لیکن وہ محفوظ رہی۔
شیخ حسینہ پر 2004 میں عوامی لیگ کی ریلی کے دوران گرینیڈ حملہ ہوا تھا جس میں 24 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس سے قبل 2000 میں بھی ایک بڑے بم حملے کی کوشش کی گئی تھی جب وہ وزیراعظم تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے بچنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
واضح رہے کہ 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے بعد، جو حکومت کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک میں تبدیل ہو گیا تھا شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 5 اگست کو مظاہرین کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس پر حملے کے خطرے کے پیش نظر، سیکیورٹی فورسز نے انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ ابتدائی طور پر وہ ایک فوجی اڈے پر منتقل ہوئیں لیکن جلد ہی ایئرفورس کے طیارے کے ذریعے اپنی بہن، ریحانہ شیخ، کے ہمراہ بھارت روانہ ہو گئیں۔
بنگلہ دیش میں اب نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے، جسے مسلح افواج کی حمایت حاصل ہے۔ عبوری حکومت نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ شیخ حسینہ کو واپس بھیجا جائے تاکہ ان کے خلاف مقدمات کا سامنا کیا جا سکے۔
بھارت میں جلاوطنی کے دوران شیخ حسینہ نے کہا کہ وہ ملک، گھر اور اپنی تمام سیاسی وراثت سے محروم ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مشکل میں ہیں ، ان کا سب کچھ ختم ہو گیا ہے لیکن انھیں یقین ہے کہ اللہ ان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔