صحافی زاہد گشکوری نے پیکا قانون سے متعلق اپنے وی لاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا اقانون سے حکومت سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے جھوٹ پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہوگی تاہم اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کیخلاف بھی اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے۔
صحافی کے مطابق آج سے پیکا قانون پر عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ انتہائی سخت ترین قانون ہے۔ اگر آپ نے حکومت مخالف یا تضحیک پر مبنی سوشل میڈیا پوسٹ شئیر کر دی، لائیک کی یا اس پر کمنٹ بھی کیا تو آپ تین سال تک جیل جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ پر 20لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ہوسکتاہے۔ خصوصاََ دور دراز کے علاقوں کے شہری جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور بیرون ملک پاکستانی بھی ایسے عمل سے بچیں جو آپکو جیل بھجوا سکتا ہے۔
پیکا قانون کیا ہے؟
زاہد گشکوری کے مطابق اس قانون کو پیکا 2025 (Prevention of Electronic Crimes Act) کا نام دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کرکے ایک نئی ایجنسی’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ بنائی گئی ہے۔ اس قانون کے مطابق جعلی خبریں پھیلانے والوں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائیگا اور سخت ترین سزائیں دی جائیںگی۔
پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں میں سائبر کرائم کی 14لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں، جوکہ ایف آئی اے سائبر کرائم اور پی ٹی اے سمیت مختلف فورمز پر درج کروائی گئیں۔ یعنی کہ حکومت پاکستان کو روزانہ کی بنیا دپر 1500سے زائد شکایات مل رہی ہیں، جن میں زیادہ تر شکایات جعلی خبر وںکے متعلق ہیں۔ لوگوں کی عزتین اچھالی جارہی ہیں، پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اورعام لوگ آن لائن فراڈ کا شکار ہورہے ہیں تاہم ان شکایات پر سزائوں کا تناسب انتہائی کم 3.2فیصد ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں صرف 222لوگوں کو سائبر کرائمز کے تحت سزائیں ہوئیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان قوانین میں تبدیلی کی ضرورت تھی تاہم حکومت نے بغیر اسٹیک ہولڈرز کے مشورے کے ان قوانین کو بنانے کیلئے انتہائی برق رفتاری سے پاس کروایا۔
صحافتی تنظیموں نے اس قانون کو اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ تاہم اسی اظہار ِ آزادی رائے کو بنیا دبنا کر جعلی خبروں کو پھیلایا جارہا ہے اور لوگوں کی عزتیں اچھالی جارہی ہیں۔اس قانون کو بہترین قانون بنایا جاسکتا تھا اگر اسٹیک ہولڈرز کی رائے اور تجاویز لی جاتیں۔
اس قانون کے تحت فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشتگردی، جعلی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ اور مسلح افواج کیخلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کی شکایات پر کارروائی ہوگی۔
اس قانون کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کیا گیا ہے،وہاں پر وفاقی حکومت یہ مقدمہ چلائے گی اور ان مقدمات پر تین ماہ میں برق رفتاری سے فیصلے سنائے جائیں گے۔ اس قانون کے تحت تین سال تک قید اور 20لاکھ روپے تک جرمانوں کی سزائیں ہوں گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں کی جاسکے گی۔
متاثرہ شخص 24گھنٹے میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی کو شکایت درج کروانے کا پابند ہوگا۔ آئینی اداروں، عدلیہ، افواج اور پارلیمنٹ کی جعلی خبریں اور حذف کیے گئے الفاظ کو سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر کارروائی ہوگی۔اس قانون کے تحت جھوٹ پھیلانے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج بلاک ہوسکتا ہے۔
جہاں کچھ لوگ اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں وہیں اس قانون کے حق میں بھی لوگوں کی رائے ہے کہ جھوٹ پھیلانے کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے اوریہ قانون وقت کی ضرورت تھا۔