خیبر پختونخوا میں وقفہ وقفہ سے جاری موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں چھتیں منہدم ہونے اور دیواریں گرنے سے 4 افراد جاں بحق جبکہ 9 زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستان ڈزآسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے ) کی جانب سے گزشتہ 5 روز کے دوران وقفے وقفے سے جاری بارشوں کے باعث صوبہ میں جانی و مالی نقصانات کی جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق 4 افراد جان بحق جبکہ 9 افراد زخمی ہوئے۔ جاں بحق افراد میں 3 مرد اور ایک خاتون جبکہ زخمیوں میں 4 بچے، 3 خواتین اور 2 مرد شامل ہیں۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بارشوں کے باعث مجموعی طور پر 14 گھروں کو نقصان پہنچا، جس میں 10 جزوی اور 3 گھر مکمل تباہ ہو گئے ہیں۔ بارشوں کے باعث حادثات صوبہ کے اضلاع ہری پور، بٹگرام، باجوڑ، اپر و لوئرکوہستان، دیر، ہنگو، خیبر اور تورغرمیں پیش آئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو متاثرہ خاندان کو فوری طور پر امداد اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے اور تمام ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو بارش اور برفباری کے باعث بند شاہراہوں کو کھولنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ادھر خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں شدید برف باری اور برفانی تودے گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ضلع استور کے بالائی علاقوں میں ہزاروں افراد پھنس کر رہ گئے ہیں جبکہ شدید برفباری اور برفانی تودے گرنے کے باعث ضلع کے بیشتر علاقوں کا گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع استور میں حالیہ دنوں میں شدید برف باری ہوئی ہے، جس میں بعض علاقوں جیسے برزیل ٹاپ، چلم داسکھیرم، میرملک اور دیگر علاقوں میں 6 انچ تک برف باری ہوئی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ استور کے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی اور ٹیلی فون سروس منقطع ہو گئی ہے جبکہ رابطہ سڑکیں بھی ناقابل رسائی ہیں جس کی وجہ سے آبادی کو ہنگامی حالات میں بھی ادویات، اشیائے خورونوش اور اسپتال تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
مقامی عہدیداروں کے مطابق استور ضلع کے منی مارگ، گلتاری، تری شانگ، شنکر گڑھ علاقوں کا گزشتہ کئی دنوں سے رابطہ منقطع ہے۔ رہائشی طبی دیکھ بھال، بنیادی ضروریات تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دسخریم چلم کا زمینی رابطہ گزشتہ کئی دنوں سے مکمل طور پر منقطع ہے، لوگ اپنے گھروں تک محدود ہیں۔
شنتر پاس کے قریب میرملک بٹواش گاؤں میں برفانی تودے گرنے سے ایک گھر جزوی تباہ ہو گیا جبکہ ایک رابطہ پل بھی تباہ ہو گیا، مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ رمضان کے آغاز پر علاقے میں خوراک کا شدید بحران ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ان علاقوں میں سرکاری طبی سہولیات اور عملہ دستیاب نہیں ہے ، اس لیے بہت سے مریضوں بشمول بزرگ افراد، حاملہ خواتین اور بچوں کو ہنگامی طبی دیکھ بھال حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چلم کے سرکاری اسپتال میں ڈاکٹروں کی عدم موجودگی اور ادویات کی شدید قلت کی وجہ سے لوگ مریضوں کو کندھوں پر اٹھا کر فوجی کیمپ یا ضلعی ہیڈ کوارٹر جانے پر مجبور ہیں۔