امریکا نے واشنگٹن میں جنوبی افریقہ کے سفیر کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دیتے ہوئے ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے انہیں ’نسل پرست سیاست دان‘ قرار دیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں روبیو نے ابراہیم رسول پر امریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نفرت کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ سفیر کا ہمارے عظیم ملک میں اب خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔ جنوبی افریقہ کے صدر دفتر نے اس فیصلے کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ امریکا کا یہ غیر معمولی اقدام دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں تازہ ترین پیش رفت کی علامت ہے۔
واضح رہے کہ بعض اوقات قونصلر سطح کے سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے لیکن امریکا میں یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے کہ کسی اعلیٰ سفارتی عہدے دار کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا ہے۔ جمعہ کو اپنی پوسٹ میں مارکو روبیو نے دائیں بازو کی تنظیم بریٹ بارٹ کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس میں ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں ایک آن لائن لیکچر کے دوران ابراہیم رسول کے کچھ حالیہ ریمارکس کا حوالہ دیا گیا تھا۔
الزام ہے کہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ابراہیم رسول نے کہا کہ ٹرمپ ’بالادستی کو فروغ دے رہے ہیں‘ اور ’سفید فام آبادی کو مظلوموں کے طور پر پیش کرنے‘ کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ امریکا میں سفید فام آبادی کے اقلیت میں جانے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’حالیہ انتخابات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکا میں سفید فام رائے دہندگان کی تعداد 48 فیصد رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ پر اس لیے حملہ کیا جا رہا ہے کیونکہ ’ہم سفید فام بالادستی کا تاریخی علاج ہیں‘۔
اس کے جواب میں مارکو روبیو نے ابراہیم رسول کو لاطینی زبان میں ’پرسنا نان گریٹا‘ یعنی ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکا اور جنوبی افریقہ کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ ابراہیم رسول جو اس سے قبل 2010 سے 2015 تک امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، کو کیپ ٹاؤن کے ڈسٹرکٹ سکس میں واقع ان کے گھر سے جبری طور پر نکال دیا گیا تھا۔ بعد میں ابراہیم رسول 2024 میں دوبارہ امریکا میں سفیر تعینات ہوئے تھے۔