خیبرپختونخوا کابینہ میں شامل 23 ارکان پراحتساب کمیٹی کی تلوار لٹکنے لگی۔ جنہیں کمیٹی نے ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے طلب کرلیا گیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ پروفارمہ پر عملدرآمد سے متعلق بھی بھی پوچھ گچھ کی جائے گی جبکہ مستقبل میں وہ کیا اقدامات اٹھائیں گے۔ اس بارے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جاٸے گا اور ان کے محکموں سے متعلق شکایات بھی زیرغور لائی جائیں گی۔
آزاد ڈیجیٹل کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ریلیف نیک محمد کو 24 مارچ کو طلب کرلیا گیا ہے، معاون خصوصی برائے جیل خانہ جات ہمایون خان کو 25 مارچ، مشیر برائے سیاحت زاہد چن زیب کو 26 مارچ، معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ رنگیز احمد کو 27 مارچ، معاون خصوصی برائے انرجی اینڈ پاور طارق محمود خان سدوزئی کو 7 اپریل، معاون خصوصی برائے سائنس ٹیکنالوجی اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی 7 اپریل ، معاون خصوصی برائے سی اینڈ ڈبلیو محمد سہیل خان افریدی کو 8 اپریل اور اسی ہی روز مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم کو بھی طلب کرلیا گیا ہے ، وزیر برائے لیبر فضل شکور کو 9 اپریل ، وزیر برائے ایری گیشن عاقب اللہ 9 اپریل، معاون خصوصی برائے ٹیکنکل ایجوکیشن طفیل انجم اور وزیر برائے بلدیات ارشد ایوب کو 10 اپریل، وزیر برائے اوقاف، حج و مذہبی امور عدنان قادری کو اور وزیر برائے اعلی تعلیم مینہ خان افریدی کو 14 اپریل، وزیر برائے لائیو سٹاک فضل حکیم اور ابتدائی و ثانوی تعلیم کے وزیر فیصل خان ترکئی کو 15 اپریل، مشیر برائے صحت احتشام علی اور معاو خصوصی برائے جنگلات مصور خان کو 16 اپریل جبکہ محکمہ قانون کے وزیر افتاب عالم خان افریدی کو 17 اپریل کو طلب کرلیا گیا ہے جبکہ کئی کچھ روز قبل ہی کمیٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی ہر ایک محکمے کی کارکردگی رپورٹ تیار کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ کو ارسال کرے گی لیکن اس کمیٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے بلکہ وزیراعلیٰ نے خود مانیٹرنگ کے طور پر قائم کررکھی ہے تاکہ وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی پر ایک پریشر موجود رہے۔ کمیٹی کی سربراہی وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اینٹی کرپشن بریگیڈئیر( ر) مصدق عباسی کررہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ممبران میں پی ٹی آئی شاہ فرمان اور قاضی انور ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں۔
احتساب کمیٹی نے ہر ایک محکمہ کیلئے 18 نکاتی پروفارمہ تیار کرلیا ہے جس کی بنیاد پر ہی وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی سے باز پرس کی جائے گی، 18 نکاتی پروفارمہ جو آزاد ڈیجٹیل کے پاس موجود ہے کے مطابق ہر پوسٹ پر اہل بندے کو تعینات کیا جائے، جس بندے کو تعینات کیا جاٸے اس کی کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہ ہوں ، ہر ایک پوسٹ کی ذمہ داریاں واضح ہوں ، ہر ایک محکمہ کو ان کے اپنے مقاصد کا پتہ ہوں اور مقررہ مدت میں اس کا حصول کریں ، کس طرح وہ پبلک امیج کو بہتر کریں گے ، ہر ایک محکمہ صیح عملہ کی تعیناتی کریں ، میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کریں ، ہر محکمہ عدالتوں میں زیر التوا کیسز کو حل کرنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے تاکہ محکمانہ سطح پر اس کو حل کیا جائے ۔ محکمے خود انٹرنل اڈٹ منعقد کرائے تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہوں، شکایاتوں کے ازالے کیلئے طریقہ کار وضع کیا جائے ، کفایت شعاری کیلئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے ، تمام منصوبے ائی ٹی کے زریعے کئے جائے تاکہ پیسوں کا عمل دخل روکا جائے ، دفاتری اوقات پر عملدرامد ہونا چائیے، رولز پر عملدرامد کرنے کے ساتھ ساتھ قانون پر نظرثانی کی جائے تاکہ اس کو عوام دوست بنایا جائے، ویلفئیر اقدامات اور کھلی کچہری کا انعقاد کیا جائے جبکہ رولز کے مطابق خریداری کی جائے ۔
احتساب کمیٹی نے ایک ماہ سے زائد ایڈیشنل چارج دینے کی بھی ممانعت کی ہے اس کے علاوہ نیب زدہ افیسرز کو پوسٹنگ نہ دینے ، گریڈ کے مطابق ہی افیسرز کی تعیناتی کرنے اور کسی بھی سنیئر افیسر کو جونیئر افیسر کا ماتحت نہ لگایا جاٸے ، کوئی بھی پٹواری اور ایس ایچ او کو ایک ہی پولیس سٹیشن اور حلقہ میں بار بار تعینات نہ کیا جائے اور جس نے بھی تین سال کا عرصہ ایک ہی پولیس سٹیشن یا حلقہ پر ڈیوٹی کی ہوں اس کو کسی بھی صورت دوبارہ وہاں تعینات نہ کیا جائے ، دور دراز اضلاع میں ڈومیسائل کی بنیاد پر تعیناتیاں کی جائے ، کارکردگی نہ دکھانے والے افیسرز کو تبدیل کیا جائے ، ہر ایک افیسر اور محکمہ کی پروفارمنس اڈٹ سال میں ایک بار لازمی کرائی جائے ۔ اسی طرح ڈیپوٹیشن پالیسی کا خاتمہ کیا جائے لیکن اس وقت درجنوں افیسرز ڈیپوٹیشن پر تعینات ہے اور اس میں سے بیشترز کی تعیناتیاں وزیر اعلی ہاوس کے احکامات پر ہوئی ہے جن میں سے بیشتر کا طریقہ کار بھی فالو نہیں کیا گیا ہے ۔ سرکاری گاڑیوں کے بے دریغ استعمال کو بند کرکے رولز کے تحت مجاز افیسر کو گاڑی الاٹ کی جائے ۔