وزیر اعظم پاکستان میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ مخالفین منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، الخمد اللہ ٹیم ورک کے نتیجے میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے۔
بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیر خزانہ سمیت تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ عام عوام اور تنخواہ دار طبقے نے مہنگائی کا بوجھ برداشت کیا، حکومت نے چیلنجنگ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مخالفین کہا کرتے تھے اب منی بجٹ آگے گا لیکن انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے حوالے سے بہت بڑی کامیابی ہے، آئی ایم ایف کی ایم ڈی کا بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہت تعاون کیا۔ دہشتگردی، مہنگائی کے باوجود معاہدے طے پانا حکومت کی سنجیدگی کا نتیجہ ہے، یقیناً ٹیم ورک کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا، یہ ٹیم کی لگن کا ہی نتیجہ ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے متعلق مخالفی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال آئی ایم ایف نے 9 کھرب روپے کا معاہدہ کیا جبکہ اس سال 12.9 کھرب روپے کا معاہدہ ہوا ہے، ایک سال کے عرصے میں کیا گیا کام لائق تحسین ہے، خاص طور پر آئی ایم ایف نے جی ڈی پی اور محصولات سے متعلق ہدف 10.2 مقرر کیا تھا جبکہ ہماری ٹیم نے 10.6 ہدف حاصل کیا یہ ہماری ٹیم کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ اس میں تنخواہ دار طبقے کی قربانی کو کسی قیمت نہیں بھولیے گا، 4 سالوں میں محصولات جمع کرنے کا ہدف سب سے زیادہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ٹیم لیڈر اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، پچھلے سال کے مقابلے میں محصولات کی وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا، مہنگائی کی شرح میں تاریخی کمی آئی ہے اور عوام کو ریلیف ملا ہے، ریلیف کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
وزیر اعظم نے سوال کیا کہ عدالتوں میں کئی سالوں سے کھربوں روپے کے ٹیکس مقدمات زیر التوا پڑے ہیں بتائیں اس میں قصور کس کا ہے؟، وزیراعظم نے کہا کہ یہ وقت طے کرے گا اس میں عدالتوں کا قصور ہے یا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ڈیجیٹائزیشن پر فاسٹ ٹریک کام جاری ہے، ٹریبونلز میں بھرتی کے لیے پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور کارپوریٹ لائرز کو لایا جارہا ہے۔ عدالتوں میں ٹیکس مقدمات کی پیروی کے لیے ایف بی آر کی جانب سے او ایس ڈی افسران کو بھیجا جاتا تھا لیکن اب حکومت نے خود اس کی نگرانی کا ذمہ اٹھایا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی چوری کے معاملے میں شوگر سیکٹر کو میں نے خود منتخب کیا ہے، گزشتہ سال اور رواں مالی سال کے ابتدائی 3 ماہ میں 12 ارب روپے کے سیلز ٹیکس کی وصولی کا فرق ہے، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ شوگر اندسٹری سے سیلز ٹیکس بڑھ کر ملا ہے اور امید ہے کہ مالی سال کے اختتام پر 60 ارب روپے اضافی سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوششوں سے چند ہفتوں میں 34 ارب روپے خزانے میں آئے ہیں، اب ہم نے تمام تر توجہ ان ٹیکسز کے حوالے سے جاری مقدمات پر مرکوز کی ہے تاکہ یہ پیسہ قومی خزانے میں آسکے اور قطرہ قطرہ کرکے سمندر بن جائے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے پر میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر تجارت سمیت تمام متعلقہ وزرا، اداروں اور ان کے سربراہوں، بالخصوص آرمی چیف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اپنا حصہ ڈالا، آپ سب کی محنت نہ ہوتی تو یہ معاہدہ اتنی جلدی نہ کرپاتے۔