وزیر اعلی امین گنڈاپور اور جنید اکبر گروپ آمنے سامنے، کرسی بچانے کیلئے تین منصوبے زیر غور

وزیر اعلی امین گنڈاپور اور جنید اکبر گروپ آمنے سامنے، کرسی بچانے کیلئے تین منصوبے زیر غور

پشاور: تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے جس کے باعث پارٹی میں دو دھڑے بن چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ اور صوبائی صدر جنید اکبر کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے اور ان دونوں کے درمیان پارٹی معاملات پر سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ علی امین گروپ نے وزارتِ اعلیٰ کے چھین جانے کی صورت میں تین ممکنہ منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے۔

جنید اکبر کے صوبائی صدر منتخب ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے تاہم اختلافات میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب جنید اکبر نے سابق صوبائی وزیر شکیل خان کی حمایت میں کھل کر موقف اپنایا۔ حالیہ دنوں میں اختلافات مزید بڑھ گئے جب وزیر اعلیٰ نے عاطف خان کے خلاف اینٹی کرپشن کیس میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کو اس وجہ سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے عاطف خان کے خلاف کیس کو عدالت سے باہر ہی ختم کروا دیا۔

جواباً جنید اکبر نے عاطف خان کو پشاور ریجن کا صدر اور ارباب شیر علی کو جنرل سیکرٹری مقرر کرنے کا اعلامیہ جاری کر دیا۔ وزیر اعلیٰ نے انہیں یہ فیصلہ واپس لینے کو کہا تاہم جنید اکبر نے انکار کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ ان کا اختیار ہے۔

پارٹی کے پارلیمنٹرین گروپ میں بھی اختلافات سامنے آئے ہیں جہاں چند ارکان نے عاطف خان اور ارباب شیرعلی کی تقرری پر اعتراض کیا تاہم زیادہ تر ارکان نے اسے قبول کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، وزیر اعلیٰ کو پارٹی کے اندر شیخ وقاص اکرم اور مصدق عباسی کی حمایت حاصل ہے جبکہ سابق گورنر شاہ فرمان بھی عمران خان سے ملاقاتیں کر کے علی امین کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین پہلے شیر افضل مروت بعد میں شیخ وقاص اکرم کو بنایا گیا تھا تاہم عمران خان کو یہ بتایا گیا کہ ایک ہی گروپ کے لوگوں کو عہدے مل رہے ہیں جس کے بعد جنید اکبر کو یہ عہدہ دے دیا گیا ۔

پارٹی ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ اپنی کرسی بچانے کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر کام کر رہے ہیں۔ پہلا منصوبہ کہ ان کی عمران خان تک رسائی ہوں اور ان کا اعتماد ان پر بحال ہوں ، دوسری اپشن فارورڈ بلاک بنانے کا ہے جس میں اپوزیشن کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے گی اور مخصوص نشستوں پر اپوزیشن کو قائل کرنے کے لیے اب تک امیدواروں کا اعلان بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ اگر یہ دونوں حکمت عملیاں ناکام ہوئیں تو آخری آپشن ارشد ایوب کو وزیر اعلیٰ بنانے کا ہو گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *