بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی )کو اپنے احتجاج کو کوئٹہ کے شاہوانی اسٹیڈیم تک محدود کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر پارٹی کے حامیوں نے صوبائی دارالحکومت کے ریڈ زون میں مارچ کیا تو قانون کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
سردار اختر مینگل، جو ذاتی طور پر بی این پی کے لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں، نے بلوچستان میں مبینہ گمشدگیوں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف آج 6 اپریل اتوار کو کوئٹہ پہنچنے کا عزم کیا ہے۔
اس سے قبل بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے احتجاج سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ قانون کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ شاہد رند نے کہا کہ ’حکومت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے، لیکن دفعہ 144 کی خلاف ورزی یا بدامنی بھڑکانے کی کسی بھی کوشش کا سخت جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے بی این پی کے سربراہ مینگل اور سینیئر رہنما ڈاکٹر سبین پر ریاست کے خلاف تقاریر کرنے کا الزام عائد کیا اور تصدیق کی کہ اس طرح کے بیانات پر قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔
شاہد رند نے انکشاف کیا تھا کہ بی این پی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے 2 دور ہوئے تھے ، جس کے دوران انہیں شاہوانی اسٹیڈیم میں احتجاج کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ تاہم، پارٹی نے کوئٹہ کے ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے پر اصرار کرتے ہوئے انکار کر دیا، جسے حکومت نے حدود سے باہر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’بی این پی -ایم نے 3 اہم مطالبات رکھے، جن میں ماہ رنگ بلوچ کی رہائی بھی شامل ہے۔ شاہد رند کے مطابق بی وائی سی کے ساتھ حکومت کے مبینہ مذاکرات کے بارے میں قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے درمیان جیل میں کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’ہر کوئی جانتا ہے کہ بی وائی سی کیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت افغان مہاجرین کے معاملے پر بلوچستان ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہی ہے اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے۔