بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی- ایم) کے مرکزی نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ کی جانب سے پیر کو بلوچستان بھر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال بری طرح ناکام ہو گئی ہے، بلوچستان کے تمام بازار، دکانیں اور مارکیٹیں کھلی ہیں، سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے اور کہیں بھی کوئی سڑک بلاک نہیں ہے۔
کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ساجد ترین نے کہا تھا کہ بی این پی (ایم) کا احتجاجی دھرنا گزشتہ 9 روز سے جاری ہے۔ انہوں نے احتجاجی لانگ مارچ کو ’عزت‘ اور ’تقدس‘ کا مارچ قرار دیا تھا، انہوں نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں پارٹی نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا آغاز کیا۔
بلوچستان کے 14 اضلاع میں ہڑتال ناکام
پیر کو بی این پی نے بلوچستان بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دے رکھی تھی جس کے مطابق گوادر، تربت، پسنی، پنجگور، خضدار، خاران، مستونگ، قلات، دالبندین، نوشکی، سوراب اور حب میں ہڑتال کی کال دی گئی تھی، لیکن عوام نے ہڑتال کی کال کو مسترد کرتے ہوئے، بازار اور دکانیں کھلی رکھی ہیں، تاہم بعض مقامات پر دکانداروں نے سیکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر دکانیں بند رکھی ہیں۔
آزاد ڈیجیٹل کے نمائندے کے مطابق ضلع قعلہ سیف اللہ میں تمام سڑکیں، دکانیں اور بازار کھلے ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ کوئٹہ میں بھی معمولات زندگی رواں دواں ہیں، ضلع لسبلیہ میں کوئی سڑک بلاک نہیں ٹریفک رواں دواں ہے، پنجگور میں بھی عوام نے ہڑتال کی کال مسترد کر دی ہے۔
ضلع نصیرآباد، بارکھان، راکنی ٹاؤن میں دکانیں کھلی رہیں
ادھر ضلع نصیرآباد کے ڈپٹی کمشنر کے مطابق عوام نے بی این پی کی ہڑتال کی کال مسترد کر دی ہے، نصیر آباد میں بھی بازار اور دکانیں کھلی ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ بارکھان اور راکنی ٹاؤن میں بھی بازاروں اور دکانوں کے کھلے رہنے کی اطلاعات ہیں۔
واضح رہے کہ بی این پی (ایم) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اعلان کیا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے 3 دور ناکام ہونے کے بعد پارٹی 6 اپریل کو کوئٹہ کی جانب مارچ کرے گی، اس سے ایک روز قبل پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور شیلنگ کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
اس سے قبل صوبائی حکومت نے مینگل کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ان کی جماعت کا مارچ کوئٹہ میں داخل ہوا تو انہیں مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت گرفتار کر لیا جائے گا۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے زور دے کر کہا کہ اگر مینگل کوئٹہ کی طرف بڑھتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
بی این پی رہنما قدوس بلوچ کے مطابق دو حکومتی وفود مذاکرات کے لیے آئے تھے لیکن ٹیموں کے پاس اختیارات کی کمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ قدوس بلوچ کے مطابق دھرنا پولیس کے محاصرے میں تھا، انہوں نے سیکیورٹی کے سنگین خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مستونگ انتہا پسندوں کا گڑھ ہے۔ تاہم حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور شرکا کو کوئٹہ پہنچنے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے انہیں مستونگ کے علاقے لکپاس میں دھرنا دینے پر مجبور ہونا پڑا۔
سردار کمال خان بنگلزئی اور میراسرار زہری کی بی این پی دھرنا ختم کرنے لیے حکومت کو تجاویز
ادھرنیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سردارکمال خان بنگلزئی اور بی این پی عوامی (زہری گروپ) کے سربراہ میر اسرار اللہ زہری نے وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی سے ملاقات کی ہے اور انہیں بی این پی مینگل اور حکومت کے درمیان لکپاس دھرنا کے خاتمے کے حوالے سے ڈیڈ لاک ختم اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی مختلف تجاویزپیش کی ہیں۔
سردار کمال خان بنگلزئی اور میر اسراراللہ زہری نے وزیر اعلیٰ بلوچستان پر زور دیا کہ مسئلے کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اس حوالے سے مختلف تجاویز پرغور کیا گیا اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ دونوں جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے اس گھمبیر صورتحال کا حل نکالا جائے۔