پاکستان نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی وجہ سے عالمی سطح پر فوجی اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے بین الاقوامی سطح پر اسلحے کی ایک نئی دوڑ شروع ہو رہی ہے، اس سے عالمی سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کے تخفیف اسلحہ کمیشن کے 2025 کے اجلاس کے جنرل مباحثے کے دوران پاکستان کی طرف سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیا ہے۔
تخفیف اسلحہ سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پہلے خصوصی اجلاس کے بعد 1978 میں قائم ہونے والے اس کمیشن کو جوہری تخفیف اسلحہ سے متعلق تجاویز تیار کرنے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کا کام سونپا گیا تھا۔ تاہم اس نے دہائیوں میں بہت کم ٹھوس پیش رفت کی ہے اور اکثر ٹھوس نتائج پیدا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک سرکاری بیان میں افتخار احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم حالیہ تاریخ میں دفاعی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ دیکھ رہے ہیں، جس سے ہتھیاروں کی دوڑ میں بڑے پیمانے پر اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں اقتدار کے حصول اور جغرافیائی سیاسی مسابقت میں تیزی آئی ہے جو ہمیں اس اہم بین الاقوامی ترجیح سے مزید دور لے گئی ہے۔
پاکستانی سفیر نے جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کی ترقی اور استعمال کو روکنے کے لیے مؤثر بین الاقوامی اقدامات کی فوری ضرورت پر زور دیا جو عالمی سلامتی کو مزید غیر مستحکم کرسکتے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس طرح کی پیش رفت ہتھیاروں کی دوڑ کو بیرونی خلا، سائبر اسپیس اور دنیا کے سمندروں سمیت نئی سرحدوں تک پھیلا رہی ہے۔
افتخار احمد نے مزید کہا کہ ’مصنوعی ذہانت تیزی سے ہماری روزمرہ زندگی کا ایک وسیع حصہ بنتا جا رہا ہے جس کے بین الاقوامی امن اور سلامتی پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘، ’انہوں نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت کے دفاعی شعبے میں استعمال نے سیکیورٹی، آپریشنل، قانونی، خاص طور پر بین الاقوامی انسانی قوانین کی تعمیل کے حوالے سے متعدد چیلنجز کو جنم دیا ہے۔
پاکستانی سفارتکار نے متنبہ کیا کہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے خود کار ہتھیاروں کے بلا روک ٹوک پھیلاؤ سے اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو سکتی ہے اور علاقائی اور عالمی سلامتی کے ماحول کو غیر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت ہتھیاروں کی دوڑ کا ایک اور شعبہ نہ بن جائے جس کے عالمی امن و سلامتی پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
افتخار احمد نے کہا کہ اقوام متحدہ کو ملٹری اے آئی ٹیکنالوجیز سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط عالمی نقطہ نظر کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے، اس مسئلے پر پاکستان اپنا بھرپور تعاون ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔