خیبرپختونخوا حکومت کے مشیراطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ افواج پاکستان کے خلاف بیان بازی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پالیسی نہیں، عمران خان کی کہی ہوئی بات ہی پی ٹی آئی کی پالیسی اور منشور ہے۔
جمعرات کو پختون ڈیجیٹل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف علی نے کہا کہ صوبائی کابینہ میں میری شمولیت عمرا ن خان کا فیصلہ تھا اور جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہا، اسی دن استعفیٰ دے دوں گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان سے خراب تعلقات کا اثر براہ راست پاکستان پر پڑ رہا ہے اس لیے صوبائی حکومت نے عوامی سطح پر بات کرنے کے لیے جرگہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم وفاقی حکومت نے ٹی او آرز سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ہم افغانستان سے سفارتی سطح پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر بات کرنا چاہتے تھے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کے دوران بھی یہی بات کی گئی کہ دہشتگردی کی بڑی وجہ افغانستان سے خراب تعلقات ہیں۔ اس وقت جو حالات چل رہے ہیں اس کی بڑی وجہ افغانستان سے خراب تعلقات ہی ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ قبائلی مشران، علمائے کرام پر مشتمل وفد افغانستان بھیجیں، عوامی نمائندوں سے بات چیت کریں اور اس جرگہ میں مسائل کا حل نکالیں۔
پاکستان میں دہشتگردی کے اثرات افغانستان پر بھی پڑ رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ افغانستان میں دہشتگردی کے واقعات کا اثر براہ راست پاکستان اور پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی کا اثر برائے راست افغانستان پر پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے رابطہ کاری کی آئین پاکستان میں اجازت ہے، اس کی بڑی مثال سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم شہبازشریف کی ہے کہ جب وہ وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ترکیہ اور چین کے ساتھ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے معاہدے کیے تھے۔
انہوں نے کہ موجودہ وقت میں بھی مریم نواز نے چین کا دورہ کیا، بیلاروس گئیں اور معاہدوں پر دستخط کیے۔ اگر پنجاب کا وزیراعلیٰ معاہدہ کرسکتا ہے تو خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ کیوں نہیں کرسکتا؟۔
خواہش ہے ٹی ٹی پی اور افغان حکومت سے دوبارہ مذاکرات ہوں
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ افغانستان کی حکومت نے 2022 میں خود دعوت دی کہ وہ پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالث بننے کو تیار ہیں، اسی تناظر میں مذاکرات کے 3 دور ہوئے جس میں سے 2 مذاکراتی دور میں، میں خود بھی موجود تھا۔مذاکرات کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچےکیونکہ مذاکرات کے دوران ہی ایمن الظواہری پر حملہ ہوا اور انہیں قتل کر دیا گیا۔
40 ہزار دہشتگردوں کو واپس لانا محض الزام ہے
بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا کہ 40ہزار دہشتگرد واپس لانے کا الزام عائد کرنے والے ایک دہشتگرد کا ہی نام لے لیں، پتا بتائیں کہ آج وہ کہاں رہ رہا ہے؟ اگر ہم لے کر آئے ہیں تو اس کو گرفتار کرنا، کیس کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ صرف سیاسی بیانات دیتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے کسی فرد کو دوبارہ آباد نہیں کیا گیا۔
بیرسٹرسیف کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو، اگر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہیں کرنے، کم ازکم افغان حکومت سے تو مذاکرات کا آغاز کریں۔
پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں سے بیرسٹر سیف کے استعفے کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور صوبائی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ عمران خان کا تھا، وہ جب بھی کہیں گے اسی دن استعفیٰ دے دوں گا۔
عمران خان کے محض فرد واحد سے اختلاف کا مطلب پاک فوج کی مخالفت نہیں
فوج کے خلاف پی ٹی آئی کے بیانات سے متعلق سوال کے جواب میں بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف بیان بازی پارٹی کی پالیسی نہیں اور عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ان کی فوج کے ساتھ بحیثیت ادارہ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ کسی افسر کے ساتھ اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی ادارے کی مخالفت کر رہے ہیں۔عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ فوج پر غیرضروری تنقید نہیں ہوگی۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے سے بیرسٹرسیف کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جب جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو ان کے ساتھ ملاقات ہوتی رہی ہے لیکن ابھی ان سے دوستی والا تعلق نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کچھ ساتھی وزیراعلیٰ سے ناراض ہیں
پی ٹی آئی کی تنظیم اور حکومت کے درمیان اختلافات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاثر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ ساتھی وزیراعلیٰ سے ناراض ہیں، کچھ کی پارٹی سے ناراضی ہے۔کبھی کبھی ایسے بیانات آجاتے ہیں جس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ اختلافات ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جماعت میں صرف ایک فرد یعنی عمران خان ہے اور ان کی کہی ہوئی بات پارٹی کا منشور، طریقہ کار اور پالیسی ہے۔
مائنز اینڈ منرل پالیسی پر عمران خان سے مشاورت ہوگی
مائنز اینڈ منرل ایکٹ پر پارٹی کے اراکین کے بائیکاٹ سے متعلق سوال پر گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹرسیف نے کہا کہ پالیسی پر اعتراض جمہوری حق ہے لیکن نقصان اس وقت ہوتا ہے جب اسی اختلاف کی وجہ سے انتشار پیدا ہو۔ عمران خان کی واضح ہدایات آئی ہیں کہ اس قانون پر ان سے مشاورت کی جائے، علی امین گنڈاپور جلد ملاقات کریں گے، جنید اکبر اور دیگر ذمہ داران بھی ان سے ملیں گے، عمران خان کو جب بریفنگ دی جائے گی تو وہ واضح پالیسی دیں گے۔کسی کو اگر اس بل پر اعتراض ہے تو ان کو وضاحت دی جائے گی، اگر کوئی مطمئن نہ ہوا تو اس پر وہ ترامیم لے کر آئے۔