وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ملک بھر میں فاسٹ فوڈ کی بین الاقوامی چینز پر حالیہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے منظم انداز میں حکومت اور کاروبار کو تباہ اور لوگوں کو بے روزگار کرنے کے لیے کیے گئے، عالمی فوڈ چینز کی فرنچائزز پاکستان کے لوگ چلاتے ہیں، ان پر حملوں سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوگا۔
لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ یہ تمام حملے واضح طور پر ایک منظم منصوبے کے تحت کیے گئے تھے۔ یہ کچھ ایسا نہیں تھا جو فلسطینیوں کے لیے تھا، بالکل ایسا نہیں ہے‘۔
عظمیٰ بخاری کا یہ بیان غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کے دوران سندھ اور پنجاب میں بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چینز کی دکانوں پر حالیہ حملوں کے بعد سامنے آیا ہے اس میں شیخوپورہ میں ایک مزدور کی جان بھی چلی گئی تھی۔مسلم لیگ (ن) کے صوبائی وزیر نے کہا کہ معاشرے میں سیاسی دہشتگرد یا اشتعال انگیز لوگ ہوسکتے ہیں جو حالیہ دنوں میں اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فاسٹ فوڈ کی دکانیں پاکستانیوں کی جانب سے خریدی گئی فرنچائزز ہیں اور جہاں پاکستانی کام کرتے ہیں۔ اگر وہاں کام کرنے والے 25 ہزار پاکستانی بے روزگار ہو جائیں تو کیا اس سے غزہ کے لوگوں کو فائدہ ہوگا؟ یا کیا غزہ کے ان مظلوم عوام کو ان حملوں سے کسی طرح فائدہ ہوگا؟ اس سے صرف پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے اور وہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ یہاں کاروبار نہیں چلائے جا سکتے۔
عظمیٰ بخاری نے زور دے کر کہا کہ پنجاب حکومت کسی کو بھی امن و امان کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی، چاہے وہ مذہب، یکجہتی یا سیاسی دہشتگردی کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح کی آگ وہ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ لوگ نہ تو پاکستانی ہیں اور نہ ہی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں امن، سرمایہ کاری یا ترقی کو پسند نہیں کرتے۔ اس میں کوئی غیر ملکی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتا ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں نے ’ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ اپنی جانیں دے رہے ہیں‘ اور اس بات پر زور دیا کہ اسلام لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ7 اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی حملے کے جواب میں شروع ہونے والے اسرائیلی حملے میں 50،000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور غزہ میں رہائش اور اسپتال کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ شہادتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔