خیبرپختونخوا میں 600 معدنیات کی لیز جاری نہ ہونے سے سالانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا میں اس وقت معدنیات کی جانب سے 3200 لیز جاری کی گئی ہیں، جس سے 6 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کی آمدن ہو رہی ہے۔ رائلٹی، آکشن اور فیسوں سمیت محکمے کو سال 2023-24 کے دوران 6 ارب 20 کروڑ روپے 99 لاکھ 70 ہزار 491 روپے کی آمدن ہوئی۔ مذکورہ لیز سے ایک لاکھ 60 ہزار لوگ روزگار سے وابستہ ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس میں پی پی کے رکن احمد کریم کنڈی کے سوال پر اسمبلی کو فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق اس وقت معدنیات کی 600 لیز بند ہیں۔ لیز کھولنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تو محکمے کو مزید سالانہ ایک ارب روپے کی آمدن ہو سکتی ہے اور 30 ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں۔
وزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ یہ ریونیو تفصیلات دو سال پرانی ہیں، اب 8 ارب تک بڑھ چکی ہیں۔ محرک کی استدعا پر سپیکر نے سوال قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا۔
احمد کنڈی نے ایک اور سوال پر کہا کہ مائنز اینڈ منرل ایکٹ زیر بحث ہے، وزیر اعلیٰ نے ہم سے تجاویز مانگی ہیں۔ مذکورہ ایکٹ ضم اضلاع پر لاگو نہیں آیا، یہ علاقے صوبے کا حصہ نہیں؟ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ انہوں نے صوبے کے مفادات کا سودا نہیں کیا، یہ بات غلط ہے۔ فیڈرل منرل ونگ کی کوئی حیثیت نہیں، اس کو نیفا میں کیوں ڈالا گیا ہے؟ وفاق کا نمائندہ یہاں بیٹھ کر ہمیں کیوں ڈکٹیشن دے گا؟ پی ٹی آئی ایم پی ایز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو ایکٹ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ جب اسٹیک ہولڈرز اور سول سوسائٹی کو نیفا باڈی میں شامل نہیں کریں گے اور بیوروکریسی کو بٹھائیں گے تو نتائج بہتر نہیں آئیں گے۔ اسٹیک ہولڈرز کو بیوروکریسی کے ساتھ شامل کیا جائے۔
صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے جواب دیا کہ مائنز اینڈ منرل ایکٹ کو لاعلمی کی وجہ سے متنازع بنایا گیا ہے، پریس کانفرنسز میں اس کی وضاحت کی ہے۔ بل میں صوبے کا اختیار وفاق کو دینے کا کوئی ایک نکتہ شامل نہیں۔ فیڈرل منرل ونگ میں صرف اور صرف ایک سنگل اور غیر مستقل ممبر ہے جس کا کام تجاویز دینا ہے۔ نیفا 2017 ایکٹ میں اس کے اسٹرکچر میں 13 ممبرز تھے، بعد میں ترمیم کر کے باڈی سات ممبرز پر محیط کر دی گئی۔ جب تک عمران خان کے ساتھ بریفنگ نہیں ہو جاتی، منرل بل زیر التوا رہے گا۔ ایکٹ میں غیر رائلٹی پر مشتمل ضم اضلاع کے علاقے مستثنیٰ ہیں۔
وزیر قانون کی جانب سے قائمہ کمیٹیوں کی حیثیت صرف تجاویز دینے کے ریمارکس پر احمد کنڈی نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹیاں حکومت کی اوورسائٹ باڈیز ہوتی ہیں، لہٰذا سوال کو قائمہ کمیٹی بھیجا جائے۔ وزیر قانون کی جانب سے مخالفت کے باوجود سپیکر نے سوال اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں ضلع کوہستان میں مبینہ طور پر چالیس ارب روپے سکینڈل کی بازگشت، متعلقہ ایم پی اے نے ذمہ داروں کو بے نقاب کر کے سخت سزا دینے کا مطالبہ کر دیا۔ سپیکر نے واضح کیا کہ اس سکینڈل کے پیچھے اداروں کی ملی بھگت کارفرما ہے، انکوائری کے لیے اے پی سی کو اختیارات دیے ہیں، دیگر اضلاع کا بھی نمبر آنے والا ہے۔
اسمبلی اجلاس میں نکتہ اعتراض پر کوہستان سے منتخب ایم پی اے سجاد اللہ خان نے کہا کہ جعلی کنسٹرکشن کمپنی، فرضی ٹھیکیدار، جعلی چیکس کے ذریعے کرپشن سی اینڈ ڈبلیو کوہستان کی منظوری سے ہوتا رہا۔ کوہستان کا سالانہ ترقیاتی بجٹ پچاس کروڑ سے ڈیڑھ ارب ہوتا ہے لیکن پچھلے سال چالیس ارب روپے نکالے گئے جو کہ ضلع میں پچاس سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔
اس مالی سکینڈل میں صوبائی سطح پر سیاسی لوگ، سرکاری افسران اور کمرشل بینکوں کے اہلکار ملوث ہیں۔ اے جی آفس اور دیگر نگرانی ادارے خاموش تماشائی بنے۔ اس رقم سے قیمتی جائیدادیں خریدی گئیں جن کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔ اس سکینڈل کے کرداروں کو بے نقاب کر کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ اگر کوئی اس گھناؤنے فعل کا تصور بھی کرے تو اس کی روح کانپ اٹھے۔
کوہستان میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے، کرپٹ عناصر نے سادہ عوام کی شناخت استعمال کر کے کرپشن کی۔ جب تک وسائل، انسانی سرمایہ اور نگرانی کا نظام موجود نہ ہو، یہی کمزوری کرپٹ عناصر کی چھوٹ بن جاتی ہے۔ اربوں روپے نکالے گئے اور کسی نے پوچھا تک نہیں، لہٰذا میری التجا ہے کہ آئندہ بجٹ میں کوہستان میں یونیورسٹی اور ٹیکنیکل ادارے قائم کیے جائیں اور لوٹی ہوئی رقم نوجوانوں کی ترقی پر خرچ کی جائے۔
سکینڈل کی انکوائری کا انتظار کر رہے ہیں، اگر کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو حلقے کے عوام کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے۔ سپیکر بابر سلیم سواتی نے کہا کہ اے جی آفس، فنانس اور سی اینڈ ڈبلیو کی ملی بھگت سے ایک ضلع سے 36 ارب روپے نکالے گئے، یہ صوبے کے لیے ایک المیہ ہے۔ باقی اضلاع کا نمبر آنے والا ہے۔ یہ پہلا سکینڈل ہے جس میں سیاسی بندہ شامل نہیں، یہ ادارتی کھیل ہے۔ اے پی سی کو تمام اختیارات دیتے ہیں، اداروں کا آڈٹ بھی کرائیں گے۔ ایک ضلع کو دس کروڑ ترقیاتی بجٹ تک ملتا نہیں، اس سے چالیس ارب روپے نکالنا اور ڈیپارٹمنٹس کو علم نہ ہو، یہ بہت بڑا الارمنگ ہے۔ وزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ سکینڈل کی انکوائری ہو رہی ہے، شفافیت پر یقین رکھتے ہیں۔