سابق بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کو جنگ سے زیادہ سفارتی سطح پر حل کرنے کو ترجیح دینی چاہیے، کیونکہ جنگ کوئی رومانوی کھیل یا بالی ووڈ فلم نہیں ہے، جنگیں کسی بھی ملک پر گہرا زخم چھوڑتی ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اکاؤنٹنٹس آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے نے دعویٰ کیا کہ آپریشن سندور نے پاکستان کو سبق سکھا دیا ہے۔
منوج مکند نروانے نے کہا کہ جنگ مسائل کا واحد حل نہیں، کسی بھی مسئلے کے سلجھاؤ کے لیے جنگ آخری آپشن ہونا چاہیے، جنگ رومانوی یا آپ کی کوئی بالی ووڈ کی فلم نہیں ہوتی یہ بہت گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر دانشمند لوگ ہم پر جنگ مسلط کریں گے لیکن ہمیں اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے۔ پھر بھی لوگ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ کے لیے کیوں نہیں گئے، ایک فوجی کی حیثیت سے اگر مجھے حکم دیا جائے تو میں جنگ میں ضرو جاؤں گا، لیکن یہ میرا پہلا انتخاب نہیں ہوگا۔ نروانے نے کہا کہ ان کا پہلا انتخاب سفارت کاری، بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنا اور مسلح تصادم کے مرحلے سے بچنا ہوگا۔
بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل منوج نروانے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر پر اٹھنے والے سوالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ رومانٹک نہیں ہوتی اور یہ بالی ووڈ کی فلم بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں صدمہ ہے، جن میں وہ بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے گولہ باری دیکھی ہے اور انہیں رات کے وقت پناہ گاہوں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔ ’جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے، ان کے لیے یہ صدمہ نسلوں تک جاری رہے گا۔ یہ لوگ پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) کا شکار ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے ہولناک مناظر دیکھے ہیں وہ 20 سال بعد بھی پسینہ بہاتے ہیں اور انہیں نفسیاتی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب قومی سلامتی میں برابر کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ ہمیں نہ صرف ممالک کے درمیان بلکہ آپس میں اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ خاندانوں میں ہوں یا ریاستوں، خطوں اور برادریوں کے درمیان، تشدد مسائل کا جواب نہیں ہے۔
سابق بھارتی آرمی چیف نے کہا کہ جنگ ایک ہولناک سلسلہ ہے، جس کے اثرات نہ صرف انسانی زندگی بلکہ آپ کی معیشت اور انفراسٹرکچر پر بھی پڑتے ہیں۔
سابق بھارتی آرمی چیف نے کروڑوں ڈالر مالیت کے طیاروں سمیت فوجی سازوسامان کے نقصان کے ساتھ ساتھ جنگ کے بعد تعمیر نو کے طویل مدتی معاشی بوجھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بہت ہولناک سلسلہ ہے۔ جس کے مالی مسائل سے ہٹ کر انتہائی گہرے سماجی اثرات بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر شہریوں کی جانوں کے ضیاع اور جنگوں کے دوران آبادیوں کی نقل مکانی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’بچے اپنے والدین کو کھو دیتے ہیں، اور بعض اوقات بچے خود اندھا دھند گولہ باری کا نشانہ بن جاتے ہیں‘۔ جنگ کا صدمہ نسلوں تک جاری رہتا ہے۔