برطانیہ نے نئی ویزا اور امیگریشن پالیسی متعارف کرا دی

برطانیہ نے نئی ویزا اور امیگریشن پالیسی متعارف کرا دی

وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے وسیع پیمانے پر امیگریشن اصلاحات کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد تارکین وطن کو کم کرنا اور سیاسی برتری کو دوبارہ حاصل کرنا ہے، کیونکہ ان کی حکومت کو اینٹی امیگریشن ریفارمز پارٹی کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

ڈاؤننگ اسٹریٹ میں خطاب کرتے ہوئے اسٹارمر نے نئی امیگریشن اصلاحات کا اعلان کیا جن میں سے ایک اہم اصلاح تارکین وطن کو برطانیہ میں آباد ہونے کے لیے درخواست دینے کے لیے 10 سال انتظار کرنا پڑے گا۔ اس سے 5 سال بعد برطانیہ میں آبادکاری کا بڑھتا ہوا سلسلہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق جون 2023 میں مجموعی امیگریشن ریکارڈ 9 لاکھ 6 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 7 لاکھ 28 ہزار تھی۔

حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں امیگریشن وائٹ پیپر پیش کرنے کی تیاری کے دوران اسٹارمر کا کہنا تھا کہ میں نے کنٹرول بحال کرنے اور پناہ گزینوں میں کمی لانے کا وعدہ کیا تھا اور میں سخت نئے اقدامات کر رہا ہوں‘۔

اہم تجاویز میں آبادکاری اور شہریت کے لیے رہائشی شرط کو 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنا، انگریزی زبان کو ضروری قرار دینا، کام، خاندان اور اسٹڈی ویزوں کے قواعد کو تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نفاذ پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔

وزیر داخلہ یویٹ کوپر، جو پالیسی دستاویز پیش کریں گے، نے اصلاحات کو ایک ’انقلابی پیکیج‘ قرار دیا جس کا مقصد کم ہنر مند امیگریشن اور غیر ملکی مجرموں کو روکنا ہے۔ نئے قوانین کے تحت کسی بھی جرم میں سزا پانے والے تمام غیر ملکی شہریوں کو ہی نہیں بلکہ سب کو ایک سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

کوپر نے اس سال 50,000 غیر ہنر مند ورکر ویزوں میں کمی کرنے اور یونیورسٹی کی ڈگری کے لیے نئی شرائط کے ساتھ ہنر مند ورکر ویزا کی حد بڑھانے کا بھی وعدہ کیا۔ ڈاکٹروں، انجینیئروں اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین جیسے اعلیٰ ہنر مند پیشہ ور افراد کو تیزی سے ٹریک کیا جائے گا۔

یہ اصلاحات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب گزشتہ سال جون تک 12 ماہ کے دوران امیگریشن کی تعداد 7 لاکھ 28 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ گزشتہ برس فرانس سے 36 ہزار 800 سے زیادہ افراد کشتیوں کے ذریعہ آئے تھے، جن میں 84 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں جن میں کم از کم 14 بچے بھی شامل تھے۔

گزشتہ جولائی میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسٹارمر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے 24 ہزار سے زیادہ ایسے افراد کو ملک بدر کیا ہے جنہیں برطانیہ میں رہنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *