ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں پر نریندر مودی کی خاموشی، اپوزیشن بھارتی وزیراعظم پر چڑھ دوڑی

ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں پر نریندر مودی کی خاموشی، اپوزیشن بھارتی وزیراعظم پر چڑھ دوڑی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان پر بھارت کی فتح کے جھوٹے دعوے اور افواہیں خود بھارتی وزیراعظم کے گلے پڑ گئیں، بھارتی عوام اور اپوزیشن جماعتیں یہ سوال اٹھانے لگیں کہ اگر بھارت یہ جنگ جیت رہا تھا تو پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیزفائر کا دعویٰ کیوں کر رہے ہیں۔

دی وائر نے کہا کہ بھارتی اپوزیشن جماعتوں نے پوچھا کہ اگر سیز فائر امریکی ثالثی کا نتیجہ ہے، تو یہ بھارت کی ‘تیسرے فریق کی ثالثی نہ کرنے’ کی دیرینہ پالیسی سے واضح انحراف ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے یہ جاننے کا مطالبہ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں پر مودی خاموش کیوں ہیں؟، کیا بھارت نے کسی تیسرے فریق کی ثالثی نہ کرنے کی اپنی دیرینہ پالیسی کو تبدیل کیا ہے اور کیا امریکی صدر کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے تجارت کے استعمال کے دعوے درست ہیں۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ جئے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے انکشافات کے باعث ہی نریندر مودی کے قوم سے خطاب میں تاخیر ہوئی ہے۔وزیر اعظم بھارتی دعوؤں پر مکمل طور پر خاموش رہے ہیں۔کیا بھارت امریکی ثالثی پر راضی ہو گیا ہے؟ کیا بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ’ کسی غیر جانبدار مقام‘ پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ وزیر اعظم کو فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کرنی چاہیے، جس سے انہوں نے گزشتہ 20 دنوں میں گریز کیا ہے۔

رام رمیش نے کہا کہ آنے والے مہینوں میں بھارت کو انتہائی جاندار سفارت کاری اور اجتماعی عزم دونوں کی ضرورت ہوگی۔’ انہوں نے کہا کہ ’ون لائنرز اور مذاکرات درست راستہ نہیں ہیں۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ رندیپ سنگھ سرجے والا نے بھی اس سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ کیا پاکستان کے ساتھ سیز فائر امریکا کی ثالثی کی بنیاد پر ہے۔

کیا مودی حکومت کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا اظہار کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے؟ کیا مودی حکومت بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں تیسرے فریق کی ثالثی کی اجازت دینے جا رہی ہے؟ اگر نہیں، تو وزیر اعظم مودی نے اس حوالے سے اپنا پالیسی بیان کیوں نہیں دیا؟

پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس

اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسوادی) کے جنرل سکریٹری ایم اے بیبی نے حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کے مطالبے کو دہرایا اور کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے کسی بھی بھارتی عہدیدار کے اعلان سے پہلے سیز فائر کا اعلان سنگین تشویش پیدا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی تسلیم شدہ پالیسی ہے کہ ہم کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی اجازت دیے بغیر اپنے تنازعات کو باہمی طور پر حل کریں۔ لہٰذا اس صورتحال میں اعلیٰ سطح سے واضح اور مستند وضاحت کی ضرورت ہے۔

راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کے لیے بیان دے کہ وہ بھارت کی بیان کردہ پالیسی کو کمزور نہ کرے اور ساتھ ہی تجارت روکنے کے بارے میں ٹرمپ کے دعوے کی تردید کرے۔

انہوں نے کہا کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح کی زبان کا انتخاب کیا ہے، اس سے ہم بھارتی متاثر ہوتے ہیں۔ میں وزیر اعظم سے درخواست کروں گا کہ آپ کے پاس ملک کا مینڈیٹ ہے، آپ امریکا کو سخت پیغام دیں۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’ہم شملہ (1972) کے بعد سے ہمیشہ تیسری پارٹی کی مداخلت کے مخالف رہے ہیں‘۔ اب ہم نے اسے کیوں قبول کیا ہے؟ مجھے امید ہے کہ تنازع کشمیر کو بین الاقوامی نہیں بنایا جائے گا کیونکہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے۔ ہم ایک ایسے علاقے پر بات کرنے پر کیوں راضی ہو رہے ہیں جو بقول ان کے ہمارا اپنا ہے؟ ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا بھارتی حکومت کا مقصد ٹرمپ کی ثالثی میں سیز فائر حاصل کرنا ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *