حکومت نے آئندہ بجٹ میں درآمدی ٹیکسز میں 120 ارب روپے کی بڑی کمی کا فیصلہ کر لیا ۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کا مقصد معیشت کو بیرونی مسابقت کے لیے کھولنا ہے، تاہم ٹیکسوں میں اس کمی سے بیرونی مالی توازن بگڑنے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں ، وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ہفتے یہ منصوبہ منظور کیا جبکہ وزارتِ صنعت اور وزارتِ تجارت کے اعتراضات کو مسترد کر دیا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے وزارت تجارت کی جانب سے محصولات کی سطح 5سے بڑھا کر 6کرنے کی تجویز کو مسترد کر کے انھیں چار سطحوں تک محدود کرنے کی منظوری دے دی ، نئی زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی 15 فیصد مقرر کی جائے گی جو کہ موجودہ 20 فیصد سے 5سال میں کم کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی منظور شدہ تجارتی اصلاحات کی رفتار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے کیے گئے وعدے سے بھی زیادہ تیز ہے، اس منصوبے سے مجموعی طور پر 512 ارب روپے کے محصولات متاثر ہوں گے تاہم تیل و گیس کی تلاش و پیداوار کے شعبے پر لاگو نرخوں میں تبدیلی اس میں شامل نہیں۔
ابتدائی سال میں تقریباً 120 ارب روپے کا ریونیو کم ہوگا، جس میں سے 100 ارب روپے صرف ٹیکس کی سطحوں میں تبدیلی کی وجہ سے کم ہوں گے ، فیصلے کے مطابق آئندہ بجٹ میں کسٹمز ڈیوٹی کی سطحوں کو چار درجوں تک محدود کر دیا جائے گا۔
0 فیصد، 5 فیصد، 10 فیصد، اور 15 فیصد۔ اس وقت پانچ سطحیں رائج ہیں۔ 0 فیصد سطح پر 2,201 اشیاء درآمد ہوتی ہیں جن پر 2 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی اور 20 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لاگو ہے۔
تاہم، آٹو موبائل سیکٹر کے لیے موجودہ درآمدی محصولات میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ایک نئی 5 فیصد ڈیوٹی سطح متعارف کروائی جائے گی۔ اسی طرح، 11 فیصد کی سطح کو 10 فیصد تک کم کیا جائے گا۔
موجودہ چوتھی سطح 16 فیصد ہے جس پر 545 اشیا درآمد ہوتی ہیں۔ یہ سطح 15 فیصد کر دی جائے گی، جب کہ پانچویں سطح، جو 20 فیصد پر مشتمل ہے، پانچ سال میں بتدریج ختم کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ معیشت کو اچانک کھولنے سے درآمدی دباؤ بڑھے گا اور زرمبادلہ کے کم ذخائر ادائیگیوں کے توازن کا بحران پیدا کر سکتے ہیں۔
ایک سینئر ٹیکس اہلکار کے مطابق درآمدی محصولات میں کمی سے ہونے والے نقصانات کو مقامی معیشت میں ٹیکس وصولی کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ وزیر اعظم آفس کا موقف ہے کہ بلند محصولات ملکی کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کو کم کر رہی ہیں اور وہ برآمدات پر توجہ نہیں دیتیں۔
تاہم وزارتِ تجارت کے حکام نے اس منصوبے کو خام مال اور تیار اشیا کے لیے ’’کاسکیڈنگ پرنسپلز‘‘ کے منافی قرار دیا۔