ناانصافی اور بدعنوانی کے خلاف بیانیے کی بنیاد پر خیبر پختونخوا میں مقبولیت حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے زیرانتظام خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں میڈیکل ڈائریکٹر جیسی اہم پوسٹ پر ایک منظورِ نظر ’کھلاڑی‘ کو تعینات کر کے صوبہ کے ایک بڑے ہسپتال کو ایڈہاک اِزم کی نذر کر دیا گیا۔
صوبائی حکومت نے انصاف ڈاکٹرز فورم، پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹرز وِنگ کے سابق صوبائی صدر سجاد داوڑ کو قواعد کے برعکس ہسپتال کا قائم مقام میڈیکل ڈائریکٹر تعینات کرکے انہیں ماہانہ لاکھوں روپے کے الاؤنس بھی جاری کر دئیے۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں میڈیکل ڈائریکٹر کا اہم عہدہ 2019 سے خالی پڑا ہے کیونکہ اس وقت کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مقیم نے عہدے سے استعفی دیاتھا لیکن نئے ایم ڈی کی تقرری میں اس وقت کے بورڈ کے ناپسندیدہ ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ میرٹ میں سرِفہرست تھے لیکن اس کے باوجود بورڈ نے دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کی تعیناتی چاہی جس پر ڈاکٹر مصطفیٰ نے عدالت سے رجوع کیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک یہ اہم انتظامی عہدہ ایڈیشنل چارج کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہسپتال کے اُس وقت کے بورڈ ممبران کی طرح موجودہ بورڈ بھی اس پوسٹ کو متنازع بنا کر اپنی مرضی کے ڈاکٹرز کو تعینات کرنے پر ہی خوش نظر آتا ہے۔
ایم ٹی آئی ریگولیشن کی شق نمبر 5 کی ذیلی شق اے، بی اور کے (k )کے مطابق ایم ڈی کی پوسٹ کے لیے وہ ڈاکٹر اہل ہوتا ہے جو ایسوسی ایٹ یا فُل پروفیسر ہو۔ نیز اس کے پاس تین سال کا انتظامی تجربہ بھی ہو۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں اس وقت پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے پاس انتظامی تجربہ بھی ہے۔ ان میں سرجری ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ماہ منیر، میڈیکل سپیشئلٹیز اور کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر عنبر اشرف، ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر حنا گل، ایسوی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کلثوم نواب، پیڈ سرجیکل ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عمران، آرتھوپیڈک ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سراج جو کہ دو سال میڈیکل ڈائریکٹر بھی رہے، سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عمران سمیت دیگر کئی ڈاکٹرز اس اضافی چارج کے لئے اہل تھے جبکہ کسی بھی قانون کے تحت ڈاکٹر سجاد اس پوزیشن کے لئے اہل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بورڈ آف گورنر نے بغیر کسی انتظامی تجربے کے ڈاکٹر سجاد کو بورڈ آف گورنر کے ایچ آر کمیٹی کا ممبر بھی بنایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہسپتال کے بورڈ آف گورنر نے 88ویں میٹنگ میں آئی بی پی کنلسٹنٹس میں سب سے جونیئر اسسٹنٹ پروفیسر انصاف ڈاکٹرز فورم کے سابق صوبائی صدر سجاد داوڑ کو قائم مقام ایم ڈی تعینات کر دیا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہسپتال کے بی او جی نے رواں سال 18 اور 19 اپریل کو ہونے والی میٹنگ میں ایم ڈی کے لیے دو لاکھ روپے ماہانہ الاؤنس کی بھی منظوری دی اور یہ الاؤنس انہیں 11 مارچ سے دیا گیا۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق بی او جی کی جانب سے ڈاکٹر مصطفیٰ اقبال کی تعیناتی نہ کرنے پر عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا اور ان کے کیس کا فیصلہ 27 نومبر 2023 کو آیا جس میں کہا گیا تھا کہ نئے ایم ڈی کی تعیناتی کے لیے اشتہار جاری کی جائے لیکن قائم مقام بورڈ نے اس پر خاموشی اختیار کی۔ تاہم موجودہ صوبائی حکومت نے اکتوبر 2024 میں مستقل بورڈ کی تعیناتی کردی۔
ہسپتال کے بی او جی نے 11 مارچ 2025 کو دسمبر 2022 میں تعینات ہونے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سجاد داوڑ کو قائم مقام ایم ڈی تعینات کر کے سینئر فیکلٹی کو نظرانداز کر دیا اور پانچ ماہ بعد 15 مارچ کو مستقل ایم ڈی کی تقرری کے لیے اشتہار بھی شائع کر دیا لیکن اس وقت تک مستقل تقرری کے عمل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ دوسری طرف نگران ایم ڈی نے اپنے اختیارات کی حد سے تجاوز کرتے ہوئے مختلف عہدوں پر تقرریوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے جو باقاعدہ طور پر سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اس سارے عمل میں موجود ہوتا ہے۔ اس بابت ان کا موقف جاننے کیلئے انہیں سوال بھی بھیجا گیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔
ذرائع کے مطابق ہسپتال کا بورڈ اف گورنرز چاہتا ہے کہ ایم ڈی کے پوسٹ کو ایک مرتبہ پھر متنازع بنایا جائے اور اس پر کوئی عدالت سے رجوع کرے تاکہ مستقل ایم ڈی کی بجائے اپنی مرضی کے ایم ڈی کو تعینات کیا جاتا رہے۔ ایم ڈی کی پوسٹ کے حوالے سے 13 فروری 2025 کو ایم ٹی آئی ٹریبونل نے ڈاکٹر اقتدار کے کیس میں فیصلہ کیا ہے کہ قائم مقام تعیناتی تین ماہ سے زائد نہیں ہو سکتی اور اسی فیصلے کی روشنی میں تین ماہ کے اندر اس عہدے پر مستقل ایم ڈی کی تقرری کرنا لازمی ہے۔
رابطہ کرنے پر ہسپتال کے بورڈ اف گورنر ممبر روبینہ گیلانی نے بتایا کہ کہ سجاد داوڑ قابل اور سنجیدہ شخصیت ہے وہ چیئرمین او ٹی کمیٹی اور ممبر انکوائری کمیٹی تھے تاہم قائم مقام ایم ڈی کی تعیناتی کے وقت تمام سینئر فیکلٹی کو مدنظر رکھا گیا تھا اور بورڈ ممبران نے اتفاق رائے سے ان کی تعیناتی کی ہے۔