اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا غزہ کی پوری پٹی پر قبضہ کرنے کا اعلان

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا غزہ کی پوری پٹی پر قبضہ کرنے کا اعلان

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اپنی تازہ ترین کارروائیوں کے بعد غزہ کی پوری پٹی پر مکمل فوجی کنٹرول حاصل کر لے گا، اسرائیلی وزیراعظم نے محصور فلسطینی علاقے میں مہینوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سخت اور متنازع شرائط بھی پیش کر دی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مذاکرات ختم، فلسطینوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیلی بمباری کا پھر آغاز، 200 افراد شہید

دسمبر کے بعد بدھ کو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں نیتن یاہو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے لیکن بہت سے مبصرین نے دیرپا جنگ کے خاتمے کے لیے ’ ناقابل حصول‘ مطالبات پیش کیے ہیں۔ ان میں تمام قیدیوں کی غیر مشروط رہائی، حماس کو مکمل غیر مسلح کرنا، اس کی قیادت کی جلاوطنی اور ممکنہ طور پر امریکی حمایت یافتہ متنازع منصوبے پر عمل درآمد شامل ہے جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ‘یہ جنگ اس وقت ختم ہو جائے گی جب ہم مکمل فتح حاصل کر لیں گے۔ یہ پہلا موقع ہے جب نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فروری کی تجویز کا عوامی طور پر حوالہ دیا ہے، جس میں غزہ کو سیاحت اور سرمایہ کاری کے مرکز میں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جسے غیر ملکی اور ممکنہ طور پر امریکی انتظامیہ کے تحت ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ کہا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور متعدد حکومتوں کی جانب سے اس منصوبے کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے، جو اسے نسل کشی کی ایک شکل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

شہادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور انسانی تباہی

نیتن یاہو کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی بمباری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق صرف بدھ کی علی الصبح سے اب تک کم از کم 82 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں مزید سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کے 2.3 ملین رہائشیوں کی شہادتوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تشویش کے باوجود یہ کارروائی جاری ہے۔

مزید پڑھیں:پاکستان کا سلامتی کونسل سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر اقدامات کا مطالبہ

اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن رپورٹ میں حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں 93 فیصد سے زیادہ بچے یعنی تقریباً 9 لاکھ 30 ہزار بچے قحط کے دہانے پر ہیں۔ اس کے باوجود، اسرائیل نے 2 مارچ سے علاقے کی تقریباً مکمل ناکہ بندی برقرار رکھی ہے، جس کی وجہ سے انسانی امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔

بدھ کو اسرائیلی حکام نے کہا تھا کہ انہوں نے آٹا، بچے کے کھانے اور طبی سامان لے جانے والے 100 ٹرکوں کو کریم شالوم (کریم ابو سلیم) کراسنگ سے گزرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے اندر تقسیم میں مسلسل رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی بھی امداد شہریوں تک نہیں پہنچی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہاکہ ’آخر کار محدود رسد کو داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے جو غزہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا۔

داخلی رد عمل اور سیاسی ہلچل

نیتن یاہو کے اس بیان پر اسرائیل میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے جنہوں نے بڑھتے ہوئے انسانی اور فوجی بحران کے درمیان ان کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپید نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی عالمی حیثیت اور معاشی استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے، ان کے الفاظ کا مطلب غزہ پر برسوں سے قبضہ اور ہمارے فوجیوں کی روزانہ ہلاکتیں ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ کو خرید نہیں رہے ، صرف انتظام سنبھالیں گے ، ڈونلڈ ٹرمپ

بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما یائر گولان نے اپنے تجزیے میں اس سے بھی زیادہ سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک دباؤ، جنونی، جھوٹے شخص کی پریزنٹیشن دیکھی جو کسی بھی چیز کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ گولان نے پریس کانفرنس کے دوران کیے گئے تبصرے پر نیتن یاہو کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔

دونوں کے درمیان کشیدگی ایک روز قبل اس وقت بڑھ گئی تھی جب گولان نے اسرائیلی حکومت پر غیر انسانی طرز عمل کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک سمجھدار ملک کسی بھی قیمت بچوں کو شوق کے طور پر قتل نہیں کر سکتا۔ نیتن یاہو نے اس بیان کو ‘خوفناک’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

بین الاقوامی تشویش میں اضافہ

اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے مکمل فوجی کنٹرول پر اصرار اور ٹرمپ کے منصوبوں پر عملدرآمد کے اعلان پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی مبصرین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ مسلسل آپریشنز اور ناکہ بندی کی پالیسیاں اجتماعی سزا کے مترادف ہوسکتی ہیں اور اس سے غزہ میں پہلے سے موجود انسانی بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *