احتساب عدالت پشاور نے 30 ارب روپے کی کرپشن کے ملزمان کے اثاثے منجمد کرنے کی اجازت دے دی

احتساب عدالت پشاور نے 30 ارب روپے کی کرپشن کے ملزمان کے اثاثے منجمد کرنے کی اجازت دے دی

پشاور کی احتساب عدالت نے اپر کوہستان کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں 30 ارب روپے سے زیادہ کی مبینہ خرد برد کی تحقیقات میں مرکزی ملزم کے طور پر بینک کیشئر سے ٹھیکیدار بننے والے شخص اور اس کے قریبی رشتہ داروں کی 38 جائیدادیں منجمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

نیب کے صوبائی ڈائریکٹر جنرل نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 12 کے تحت مذکورہ جائیدادوں کو منجمد کرنے کے 9 اور 12 مئی 2025 کو 2 احکامات جاری کیے تھے اور انہیں تصدیق کے لیے عدالت کو بھیج دیا تھا۔

ملزم محمد ریاض نے 2006-07 میں نیشنل بینک آف پاکستان میں کیشئر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی تھی اور سال 2021 میں بینک سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اپنی مدت ملازمت کے دوران انہوں نے پٹن اور داسو میں بینک کی شاخوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مبینہ طور پر اپنے 6 بھائیوں کے نام پر  اور بعد میں استعفے کے بعد اپنے نام پر کچھ تعمیراتی کمپنیاں قائم کی تھیں۔

ٹھیکیدار اور رشتہ داروں پر 30 ارب روپے سے زیادہ کے فنڈز میں خرد برد کا الزام

منجمد جائیدادوں میں 31 غیر منقولہ جائیدادیں شامل ہیں جن میں کمرشل پلازے، کمرشل پلاٹس، ایک فارم ہاؤس، رہائش گاہیں اور دکانیں شامل ہیں۔

یہ جائیدادیں محمد ریاض، ان کے 6 بھائیوں عبدالمنان، محمد ایوب، حزب الرحمان، عبدالحنان، عبدالجبار اور محمد ایاز، ان کی اہلیہ اور بیٹی حسن بی بی اور صفیہ ریاض کے نام پر ہیں۔

منجمد جائیدادوں میں 7 گاڑیاں بھی شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر حزب الرحمان کے نام پر ہیں۔ احتساب عدالت کے جج رجب علی نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن اور بد عنوانی کے الزامات پر انکوائری جاری ہے۔

عدالت نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جائیدادوں، اثاثوں کے الگ تھلگ ہونے یا منتقل ہونے کا پورا امکان ہے جس سے متعدد پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، لہٰذا ڈائریکٹر جنرل نیب کے پی کی جانب سے اثاثے منجمد کرنے کے احکامات حقیقی اور انصاف کے مفاد میں ہیں، کیونکہ اس کی تصدیق قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 12 کے تحت کی گئی ہے۔

عدالت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنرز کو منجمد جائیدادوں کے انتظام و انصرام اور حفاظت کے لیے وصول کنندہ مقرر کیا ہے تاکہ اگر اس معاملے سے نمٹنے کے لیے علیحدہ اکاؤنٹس رکھ کر آمدنی حاصل کی جا سکے۔ اس نے وصول کنندگان کو ہدایت کی کہ وہ زیر بحث جائیدادوں کی فہرست تیار کریں۔

نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر حبیب اللہ بیگ ایڈیشنل ڈائریکٹر حبیب الرحمان محسود اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر شاہد حسین کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ مصدقہ اطلاعات پر نیب نے انکوائری کا آغاز کیا اور ابتدائی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ محکمہ مواصلات و ورکس اپر کوہستان کے افسران نے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس اپر کوہستان اور این بی پی برانچ کے افسران کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں سے 30 ارب روپے سے زیادہ کی خرد برد کی اور متعدد کنٹریکٹرز کے نام پر قومی خزانے سے جعلی رقوم نکالیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس اپر کوہستان نے ٹھیکیداروں کی جانب سے کیے گئے مبینہ کام کی تصدیق کیے بغیر اربوں روپے کے چیک جاری کیے جو ٹھیکیداروں کی جانب سے ان کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ رقم جمع کرائی گئی، جرائم سے حاصل ہونے والی رقم مختلف بینک اکاؤنٹس میں جمع کی گئی اور بعد ازاں ملزمان کی جانب سے متفقہ تناسب میں ضم اور تقسیم کی گئی جس میں جائیدادوں کی خریداری بھی شامل تھی جس سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا۔

پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ محمد ریاض اور سی اینڈ ڈبلیو کوہستان کے ایک ہیڈ کلرک قیصر اقبال، مذکورہ کمپنیوں کے کچھ دیگر افسران اور مالکان نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جعلی بل جمع کرائے اور کمپنیوں کے اکاؤنٹ ’جی 10113‘کے ہیڈ سے کمپنیوں کے حق میں سول کام کے بہانے سی اینڈ ڈبلیو، آبپاشی، صحت عامہ جیسے منصوبوں کے لیے جن کا کوئی وجود نہیں ہے، مختلف چیک جاری کیے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ غبن کی گئی رقم سے مدعا علیہ محمد ریاض اور ان کے رشتہ داروں نے بے نامی جائیدادیں خریدی ہیں۔ اسی طرح قیصر اقبال کے بھائی عاطف اقبال نے بھی ایک گاڑی خریدی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ جائیدادیں محمد ریاض اور ان کے بے نامی رشتہ داروں کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے نیب نے انہیں منجمد کیا ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ منجمد کرنے کے احکامات کی تصدیق کی جائے اور خدشہ ظاہر کیا کہ تصدیق نہ ہونے کی صورت میں امکان ہے کہ مدعا علیہان مذکورہ جائیدادوں کو منتقل یا الگ کر سکتے ہیں جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *